یہ انجمن غلامان مُحمّد ﷺ کی آفیشیل ویب سائٹ ہے
!

Fitna e Najdiaat ! Fitna e Wahabi ! Fitna Ahl e Hadees ! beware of them

Fitna e Najdi ,wahabi , Fitna e Ahl e Hadith ,Fitna e Deoband !

These don't belong to Ahl e Sunnat they are Khawarij Expelled out of Religion beware about them 


Abdul wahab Najdi  ( Wahabi)

(۳) وہابی: یہ ایک نیا فرقہ ہے جو ۱۲۰۹ھ؁ میں پیدا ہوا، اِس مذہب کا بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی تھا، جس نے تمام عرب، خصوصاً حرمین شریفین میں بہت شدید فتنے پھیلائے، علما کو قتل کیا(1)، صحابہ کرام و ائمہ و علما و شہدا کی قبریں کھود ڈالیں(2)، روضہ انور کا نام معاذاﷲ \'\'صنمِ اکبر\'\' رکھا تھا(3)، یعنی بڑا بت اور طرح طرح کے ظلم کیے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ نجد سے فتنے اٹھیں گے اور شیطان کا گروہ نکلے گا۔(4) وہ گروہ بارہ سو برس بعدیہ ظاہر ہوا۔ علامہ شامی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے اِسے خارجی بتایا۔(5) اِس عبدالوہاب کے بیٹے نے ایک کتاب لکھی جس کا نام

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ في \'\'ردالمحتار\'\'، کتا ب الجھاد، باب البغاۃ، مطلب في اتباع عبد الوھاب الخوارج في زماننا، ج۶، ص۴۰۰: (وقع في زماننا في أتباع عبد الوھاب الذ ین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وکانواینتحلون مذ ھب الحنابلۃ، لکنّھم اعتقدوا أنّھم ھم المسلمون وأنّ من خالف اعتقادھم مشرکون، واستباحوا بذ لک قتل أھل السنۃ وقتل علمائھم).
انظر\'\'الدرر السنیۃ فيالأجوبۃ النجدیۃ، کتاب العقائد، الجزء الأول، ص۶۷.
2۔۔۔۔۔۔ \'\'الدرر السنیۃ فيالأجوبۃ النجدیۃ، کتاب العقائد، الجزء الأول، ص۵۷.
3۔۔۔۔۔۔ قال محمد بن عبدالوھاب نجدی: (فالقبر المعظّم المقدّس وَثَنٌ وصنمٌ بکل معاني الوثنیّۃ لوکان الناس یعقلون). 
حاشیہ \'\'شرح الصدور بتحریم رفع القبور\'\' لمحمد بن عبد الوھاب، ص ۲۵، مطبوعہ سعودیہ.
4۔۔۔۔۔۔ عن ابن عمر قال: ذکر النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ((اللّٰھم بارک لنا في شا منا، اللّٰھم با رک لنا في یمننا، قالوا: یا رسول اللہ! وفي نجد نا ؟ قال: اللّٰھم بارک لنا في شأمنا، اللّٰھم با رک لنا في یمننا، قالوا: یا رسول اللہ! وفي نجدنا ؟ فأظنہ قال في الثالثۃ: ھناک الزلازل والفتن، وبھا یطلع قرن الشیطان)).\'\'صحیح البخاري\'\'، کتا ب الفتن، الحدیث:۷۰۹۴، ج۴، ص۴۴۰۔۴۴۱.
5۔۔۔۔۔۔ في\'\'ردالمحتار\'\'، کتاب الجھاد، ج۶، ص۴۰۰: (ویکفرون أصحاب نبینا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) علمت أنّ ھذا غیر شرط في مسمّی الخوارج، بل ھو بیان لمن خرجوا علی سیدنا علي رضي اللہ عنہ، وإلاّ فیکفي فیھم اعتقادھم کفر من خرجوا علیہ، کما وقع في زماننا فيأتباع عبد الوھاب الذین خرجوا من نجد وتغلبوا علی الحرمین وکانوا ینتحلون مذ ہب الحنابلۃ).
(إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوہُ عَدُوًّا) [پ۲۴، فاطر: ۶] في \'\'تفسیر الصاوي\'\'، ج۵، ص۱۶۸۸: وقیل: ہذہ الآیۃ نزلت في الخوارج الذین یحرفون تأویل الکتاب والسنۃ ویستحلون بذلک دماء المسلمین وأموالہم لما ھو مشاہد الآن في نظائرہم یحسبون أنھم علی شيء ألا إنّہم ہم الکاذبون استحوذ علیہم الشیطن فأنساہم ذکر اللہ أولئک حزب الشیطن ہم الخاسرون، نسأل اللہ الکریم أن یقطع دابرہم۔ 
في \'\'شرح النساءي\'\'، ج۱، ص۳۶۰ : (قولہ: ((کما یمرق السہم۔۔۔ إلخ)): یرید أنّ دخولہم أي: الخوارج في الإسلام ثم خروجھم منہ لم یتمسکوا منہ بشیء کالسہم دخل في الرمیۃ ثم نفذ وخرج منھا ولم یعلق بہ منھا شیء کذا في \'\'المجمع\'\' ثم لیعلم إنّ الذین یدینون دین ابن عبد الوھاب النجدي یسلکون مسالکہ في الأصول والفروع ویدعون في بلادنا باسم الوھابین وغیر المقلدین ویزعمون أنّ تقلید أحد الأئمۃ الأربعۃ رضوان اللہ علیہم أجمعین شرک وإنّ من خالفہم ہم المشرکون
\'\'کتاب التوحید\'\' رکھا(1) ، اُس کا ترجمہ ہندوستان میں \'\'اسماعیل دھلوی\'\' نے کیا، جس کا نام\'\'تقویۃ الایمان\'\' رکھا اور ہندوستان میں اسی نے وہابیت پھیلائی۔ 
اِن وہابیہ کا ایک بہت بڑا عقیدہ یہ ہے کہ جو اِن کے مذہب پر نہ ہو، وہ کافر مشرک ہے۔ (2) یہی وجہ ہے کہ بات بات پر محض بلاوجہ مسلمانوں پر حکمِ شرک و کفرلگایا کرتے اور تمام دنیا کو مشرک بتاتے ہیں۔ چنانچہ \'\'تقویۃ الایمان\'\' صفحہ ۴۵ میں وہ حدیث لکھ کر کہ \'\'آخر زمانہ میں اﷲ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جو ساری دنیا سے مسلمانوں کو اٹھا لے گی۔\'\' (3) اِس کے بعد صاف لکھ دیا: \'\'سو پیغمبرِ خدا کے فرمانے کے موافق ہوا\'\'(4)، یعنی وہ ہوا چل گئی اور کوئی مسلمان روئے زمین پر نہ رہا ، مگر یہ نہ سمجھا کہ اس صورت میں خود بھی تو کافر ہوگیا۔ 
اِس مذہب کا رکنِ اعظم، اﷲ (عزوجل) کی توہین اور محبوبانِ خدا کی تذلیل ہے، ہر امر میں وہی پھلو اختیار کریں گے جس سے منقصت نکلتی ہو۔ (5) اس مذہب کے سرگروہوں کے بعض اقوال نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، کہ ھمارے عوام بھائی ان کی

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ویستبیحون قتلنا أھل السنۃ وسبي نسائنا وغیر ذلک من العقائد الشنیعۃ التي وصلت إلینا منھم بواسطۃ الثقات وسمعناہا بعضاً منھم أیضاً ہم فرقۃ من الخوارج وقد صرح بہ العلامۃ الشامي في کتابہ \'\'ردّ المحتار\'\'۔ 
1۔۔۔۔۔۔ في \'\'الأعلام\'\' للزرکلي، ج۶، ص۲۵۷: (محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان النجدي، لہ مصنفات أکثرہا رسائل مطبوعۃ، منھا \'\'کتاب التوحید\'\'). انظر\'\'معجم المؤلفین\'\'، ج۳، ص۴۷۲۔۴۷۳۔
2۔۔۔۔۔۔ في \'\'الدرر السنیۃ في الأجوبۃ النجدیۃ\'\'، لعبد الرحمن بن محمد بن قاسم المتوفی ۱۳۹۲ھ، ج۱، ص۶۷: (واعلم أنّ المشرکین في زماننا: قد زادوا علی الکفار في زمن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بأنھم یدعون الملائکۃ، والأولیائ، والصالحین ویریدون شفاعتہم والتقرب إلیہم۔۔۔ إلخ)۔ وفي ص۶۹: (وعرفت أن إقرارہم بتوحید الربوبیۃ لم یدخلہم في الإسلام، وأن قصدہم الملائکۃ والأنبیاء والأولیاء یریدون شفاعتہم والتقرب إلی اللہ تعالی بہم ہو الذي أحل دمائہم وأموالہم۔۔۔ إلخ)۔
وفي \'\'رد المحتار\'\'، کتاب الجھاد، ج۶، ص۴۰۰: ( لکنّھم اعتقدوا أنّھم ھم المسلمون وأنّ من خالف اعتقادھم مشرکون). 
3۔۔۔۔۔۔ ((ثم یبعث اللہ ریحا طیبۃ، فتوفّی کل من في قلبہ مثقال حبۃ من خردل من إیمان فیبقی من لا خیر فیہ، فیرجعون إلی دین آبائہم)). \'\'صحیح مسلم\'\'، کتاب الفتن ، باب لا تقوم الساعۃ حتی تعبد دوس ذا الخلیصۃ، الحدیث: ۷۲۹۹، ص۱۱۸۲. 
4۔۔۔۔۔۔ \'\'تقویۃ الإیمان\'\'، باب أول، فصل۴: شرک فی العبادات کی برائی کا بیان، ص۴۵:



5۔۔۔۔۔۔ ان کی شان میں نقص و عیب ظاہر ہوتا ہو۔
قلبی خباثتوں پر مطلع ہوں اور ان کے دامِ تزویر (1) سے بچیں اور ان کے جبّہ و دستار پر نہ جائیں۔ برادرانِ اسلام بغور سُنیں اور میزانِ ایمان میں تولیں کہ ایمان سے زیادہ عزیز مسلمان کے نزدیک کوئی چیز نہیں اور ایمان، اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی محبت و تعظیم ہی کا نام ہے۔ ایمان کے ساتھ جس میں جتنے فضائل پائے جائیں وہ اُسی قدر زیادہ فضیلت رکھتا ہے، اور ایمان نہیں تو مسلمانوں کے نزدیک وہ کچھ وقعت نہیں رکھتا، اگرچہ کتنا ہی بڑا عالم و زاہد و تارک الدنیا وغیرہ بنتا ہو، مقصود یہ ہے کہ اُن کے مولوی اور عالم فاضل ہونے کی وجہ سے اُنھیں تم اپنا پیشوا نہ سمجھو، جب کہ وہ اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کے دشمن ہیں، کیا یہود ونصاریٰ بلکہ ہنود میں بھی اُن کے مذاہب کے عالم یا تارک الدنیا نہیں ہوتے...؟! کیا تم اُن کو اپنا پیشوا تسلیم کرسکتے ہو...؟! ہرگز نہیں! اِسی طرح یہ لامذہب و بد مذہب تمھارے کسی طرح مقتدا نہیں ہوسکتے۔ 
\'\'اِیضاح الحق\'\' صفحہ ۳۵ و صفحہ ۳۶ مطبع فاروقی میں ہے(2) : (\'\'تنزیہ اُو تعالیٰ از زمان و مکان و جہت و اثباتِ رویت بلاجہت و محاذاتِ ہمہ از قبیل بدعاتِ حقیقیہ است، اگر صاحبِ آں اعتقاداتِ مذکورہ را از جنسِ عقائدِ دینیہ مے شمارد\'\') .(3)
 


Abdul wahab Najdi ki Gustakhian Aor Aqaid




    اس میں صاف تصریح ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو زمان و مکان و جہت سے پاک جاننا اور اس کا دیدار بلا کیف ماننا، بدعت و گمراہی ہے، حالانکہ یہ تمام اھلِ سنت کا عقیدہ ہے۔ (4) تو اِس قائل نے تمام پیشوایانِ اھلسنت کو گمراہ و بدعتی بتایا، ''بحر الرائق'' و ''درِ مختار''

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ مکر وفریب۔
2۔۔۔۔۔۔''إیضاح الحق''، (مترجم اردو) فائدہ اول، پھلا مسئلہ، ص۷۷۔۷۸، قدیمی کتب خانہ.
3۔۔۔۔۔۔یعنی: اللہ تعالی کو زمان ومکان اور جہت سے پاک قرار دینا اور اس کا دیدار بلا جہت وکیف ثابت کرنا یہ تمام امور از قبیل بدعت حقیقیہ ہیں اگر کوئی شخص ان مذکورہ اعتقادات کو دینی اعتقاد شمار کرے۔
4۔۔۔۔۔۔ '' تحفہ اثنا عشریہ ''میں شاہ عبد العزیز محدث دھلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : (عقیدہ سیزدہم آنکہ حق تعالی را مکان نیست واو را جہت از فوق وتحت متصور نیست وہمینست مذہب اھل سنت وجماعت)
یعنی:تیرھواں عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے مکان اور فوق وتحت کی جہت متصور نہیں ہے اور یہی اھل سنت وجماعت کا مذہب ہے۔ 
(''تحفہ اثنا عشریہ''، (مترجم) پانچواں باب، مسائل الہیات، ص۲۷۹، دار الاشاعت).
    وفي ''الحدیقۃ الندیۃ''، ج ۱ ، ص۲۴۸۔۲۴۹: (ولا یتمکن بمکان) أي: واللہ تعالی یستحیل علیہ أن یکون في مکان، (ولا یجري علیہ) سبحانہ وتعالی (زمان، ولیس لہ) تعالی (جہۃ من الجہات الست) التي ہي فوق وتحت ویمین ویسار وقدام وخلف، لأنّہ تعالی لیس بجسم حتی تکون لہ جہۃ کما للأجسام، ملتقطا.
    وفي''الفقہ الأکبر''، ص۸۳: (واللہ تعالی یری في الآخرۃ، ویراہ المؤمنون وہم في الجنۃ بأعین رؤوسہم بلا تشبیہ ولا کیفیۃ، ولا کمیۃ، ولا یکون بینہ وبین خلقہ مسافۃ). انظر ''الفتاوی الرضویۃ''، کتا ب السیر، ج۱۴، ص۲۸۳.
 و''عالمگیری'' میں ہے :کہ اﷲ تعالیٰ کے لیے جو مکان ثابت کرے، کافر ہے۔ (1) 
    ''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۶۰ میں یہ حدیث:

 ((أَرأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِيْ أَ کُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ.))(2)

    نقل کر کے ترجمہ کیا کہ ''بھلا خیال تو کر جو تُو گزرے میری قبر پر، کیا سجدہ کرے تو اُس کو''، اُس کے بعد (ف) لکھ کر فائدہ یہ جَڑ دیا: ( یعنی میں بھی ایک دن مر کر مٹی میں ملنے والا ہوں۔) (3) حالانکہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

 ((إِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أنْ تَأْکُلَ أجْسَادَ الأَنْبِیَاءِ.))(4)

''اﷲ تعالیٰ نے اپنے انبیا علیہم السلام کے اَجسام کھانا، زمین پر حرام کر دیا ہے۔''

 ((فَنَبِيُّ اللہِ حَيٌّ یُّرْزَقُ.)) (5)

''تو اﷲ (عزوجل) کے نبی زندہ ہیں، روزی دیے جاتے ہیں۔'' 
    اِسی ''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۱۹ میں ہے: ''ھمارا جب خالق اﷲ ہے اور اس نے ہم کو پیدا کیا توہم کو بھی چاہیے کہ اپنے ہر کاموں پر اُسی کو پکاریں اور کسی سے ہم کو کیا کام؟ جیسے جو کوئی ایک بادشاہ کا غلام ہوچکا تو وہ اپنے ہر کام کا علاقہ اُسی سے رکھتا ہے،

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ في''البحر الرائق''، کتاب السیر، باب أحکام المرتدین، ج۵، ص۲۰۲: (یکفر بقولہ یجوز أن یفعل اللہ فعلاً لاحکمۃ فیہ، وبإثبات المکان للہ تعالی فإن قال اللہ في السماء فإن قصد حکایۃ ما جاء في ظاہر الأخبار لایکفر وإن أراد المکان کفر، وإن لم یکن لہ نیۃ کفر عند الأکثر وہو الأصح وعلیہ الفتوی).
    في ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب السیر، باب أحکام المرتدین، ج۲، ص۲۵۹: (یکفر بإثبات المکان للہ تعالی).
'' الفتاوی الرضویۃ '' ، کتا ب السیر، ج۱۴، ص۲۸۲ ۔ ۲۸۳.
2۔۔۔۔۔۔ ''سنن أبي داود''، کتاب النکاح، باب في حق الزوج علی المرأۃ، الحدیث: ۲۱۴۰، ج۲، ص۳۵۵.
3۔۔۔۔۔۔ ''تقویۃ الإیمان''، باب أوّل، فصل۵، شرک فی العبادات کی برائی کا بیان، ص۵۷:

 

4۔۔۔۔۔۔ ''سنن ابن ماجہ''، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، الحدیث: ۱۶۳۷، ج۲، ص۲۹۱.
     ''سنن أبي داود''، کتاب الصلاۃ، باب فضل یوم الجمعۃ ولیلۃ الجمعۃ، الحدیث:۱۰۴۶، ج۱، ص۳۹۱.
     ''سنن النساءي''، کتاب الجمعۃ، باب إکثار الصلاۃ علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعۃ، الحدیث: ۱۳۷۱، ص۲۳۷.
    '' المسند''، للإمام أحمد بن حنبل، ج۵، ص۴۶۳، الحدیث:۱۶۱۶۲. 
     ''المستدرک'' للحاکم، کتاب الجمعۃ، الحدیث:۱۰۶۸، ص۵۶۹.
5۔۔۔۔۔۔ ''سنن ابن ماجہ''، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، الحدیث: ۱۶۳۷، ج۲، ص۲۹۱.
دوسرے بادشاہ سے بھی نہیں رکھتا اور کسی چوہڑے چمار کا تو کیا ذکر۔'' (1) 
    انبیائے کرام و اولیائے عِظام کی شان میں ایسے ملعون الفاظ استعمال کرنا، کیا مسلمان کی شان ہو سکتی ہے...؟! 
    ''صراطِ مستقیم'' صفحہ ۹۵: ''بمقتضائے (ظُلُمٰتٌم بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍط)(2) از وسوسہ زنا، خیالِ مجامعتِ زوجہ خود بہتراست، و صرفِ ہمت بسوئے شیخ و اَمثالِ آں از معظمین گو جنابِ رسالت مآب باشند بچندیں مرتبہ بد تر از استغراق درصورتِ گاؤ و خرِ خود ست۔'' (3) 
    مسلمانو ! یہ ہیں اِمام الو ہابیہ کے کلماتِ خبیثات! او ر کس کی شان میں؟ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں! جس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان ہے، وہ ضروریہ کہے گا کہ اِس قول میں گستاخی ضرور ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ ''تقویۃ الایمان''، باب اول، فصل ۱، شرک سے بچنے کا بیان، ص۲۸:
2۔۔۔۔۔۔ پ۱۸، النور:۴۰.
3۔۔۔۔۔۔ ''صراط مستقیم''، ص۸۶:
    ''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۱۰:
     ''روزی کی کشائش اور تنگی کرنی اور تندرست و بیمار کر دینا، اِقبال و اِدبار (1) دینا، حاجتیں بر لانی، بلائیں ٹالنی، مشکل میں دستگیری کرنی، یہ سب اﷲ ہی کی شان ہے اور کسی انبیا، اولیا، بھوت، پری کی یہ شان نہیں، جو کسی کو ایسا تصرّف ثابت کرے اور اس سے مرادیں مانگے اور مصیبت کے وقت اُس کو پکارے، سو وہ مشرک ہو جاتا ہے، پھر خواہ یوں سمجھے کہ اِن کاموں کی طاقت اُن کو خود بخود ہے، خواہ یوں سمجھے کہ اﷲ نے اُن کو قدرت بخشی ہے، ہر طرح شرک ہے۔ ''(2)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
یعنی: ظلمات بعضہا فوق بعض کی بناء پر زنا کے وسوسہ سے اپنی بیوی سے مجامعت کا خیال بہتر ہے اور اپنی ہمت کو شیخ اور ان جیسے معظم لوگوں خواہ جناب رسالت مآب ہی ہوں، کی طرف مبذول کرنا اپنے گائے اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے کئی گناہ بدتر ہے، کیونکہ ان کا خیال تعظیم اور اجلال کے ساتھ انسان کے دل کی گہرائی میں چپک جاتا ہے، بخلاف گدھے اور گائے کے خیال میں نہ تو اس قدر چسپیدگی ہوتی ہے اور نہ ہی تعظیم بلکہ ان کا خیال بے تعظیم اور حقیر ہوتا ہے ،اور یہ غیر کی تعظیم و اجلال نماز میں ملحوظ و مقصود ہو تو شرک کی طرف کھینچ لیتی ہے۔ 
1۔۔۔۔۔۔ عروج و زوال۔ 
2۔۔۔۔۔۔ ''تقویۃ الایمان''، باب اوّل، توحید اور شرک کا بیان، ص۲۲:
    ''قرآن مجید'' میں ہے:

 (اَغْنٰہُمُ اللہُ وَرَسُوۡلُہٗ مِنۡ فَضْلِہٖ ۚ )ـ1ـ

''اُن کو اﷲ و رسول اﷲ نے غنی کر دیا اپنے فضل سے۔'' 
    قرآن تو کہتا ہے کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ عللیہ  وسلم نے دولت مند کر دیا اور یہ کہتا ہے: ''جو کسی کو ایسا تصرّف ثابت کرے مشرک ہے۔'' تو اِس کے طور پر قرآنِ مجید شرک کی تعلیم دیتا ہے...! قرآن عظیم میں ارشاد ہے:

 (وَتُبْرِیُٔ الۡاَکْمَہَ وَالۡاَبْرَصَ بِاِذْنِیۡ ۚ )

''اے عیسیٰ! تُو میرے حکم سے مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو اچھا کر دیتا ہے۔'' 
    اور دوسری جگہ ہے:

 ( وَاُبْرِیُٔ الۡاَکْمَہَ وَالۡاَبْرَصَ وَاُحۡیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللہِ ۚ )ـ3ـ

    ''عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں: میں اچھا کرتا ہوں، مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو اورمُردوں کو جِلا دیتا ہوں، اﷲ کے حکم سے۔'' 
    اب قرآن کا تو یہ حکم ہے اور وہابیہ یہ کہتے ہیں کہ تندرست کرنا اﷲ (عزوجل) ہی کی شان ہے، جو کسی کو ایسا تصرّف ثابت کرے مشرک ہے۔ اب وہابی بتائیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ایسا تصرّف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ثابت کیا تو اُس پر کیا حکم لگاتے ہیں...؟! اور لُطف یہ ہے کہ اﷲ عزوجل نے اگر اُن کو قدرت بخشی ہے، جب بھی شرک ہے تو معلوم نہیں کہ اِن کے یہاں اِسلام کس چیز کا نام ہے؟ 
    ''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۱۱: 
    ''گِرد و پیش کے جنگل کا ادب کرنا، یعنی وہاں شکار نہ کرنا، درخت نہ کاٹنا، یہ کام اﷲ نے اپنی عبادت کے لیے بتائے ہیں، پھر جو کوئی کسی پیغمبر یا بھوت کے مکانوں کے گِرد و پیش کے جنگل کا ادب کرے، اُس پر شرک ثابت ہے، خواہ یوں سمجھے کہ یہ آپ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ پ۱۰، التوبۃ : ۷۴.
2۔۔۔۔۔۔ پ۷، المآئدۃ: ۱۱۰. 
3۔۔۔۔۔۔ پ۳، اٰلِ عمرٰن: ۴۹.
ہی اِس تعظیم کے لائق ہے، یا یوں کہ اُن کی اِس تعظیم سے اﷲ خوش ہوتا ہے، ہر طرح شرک ہے۔'' (1)
    متعدد صحیح حدیثوں میں ارشاد فرمایا: کہ ''ابراہیم نے مکہ کو حرم بنایا اور میں نے مدینے کو حرم کیا، اِس کے ببول کے درخت نہ کاٹے جائیں اور اِس کا شکار نہ کیا جائے۔'' (2)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ ''تقویۃ الایمان''، باب اول، توحید اور شرک کا بیان، ص۲۳:

 

2۔۔۔۔۔۔ عن جابر قال: قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ((إنّ ابراہیم حرّم مکۃ، وإنّي حرمتُ المدینۃ ما بین لابتیھا، لا یقطع عضاھھا ولا یصاد صیدھا)). 
    ''صحیح مسلم''، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبي فیھا بالبرکۃ... إلخ، الحدیث: ۱۳۶۲، ص۷۰۹.
    وفي روایۃ: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((إنّي أحرم ما بین لابتي المدینۃ کما حرم إبراہیم حرمہ لا یقطع عضاہہا ولا یقتل صیدہا)). ''المسند''، للإمام أحمد بن حنبل، ج۱، ص۳۸۴، الحدیث: ۱۵۷۳۔
    وفي روایۃ ''صحیح مسلم''، قال النبيصلی اللہ علیہ وسلم: ((۔۔۔۔۔۔ اللہم إنّ إبراہیم حرم مکۃ فجعلہا حرماً، وإنّي حرّمت المدینۃ حراماً ما بین مأزمیہا، أن لا یہراق فیہا دم، ولا یحمل فیہا سِلاح لقتال، ولا تخبط فیہا شجرۃ إلاّ لعلف، اللہم بارک لنا في مدینتنا، اللہم بارک لنا في صاعنا، اللہم بارک لنا في مدّنا، اللہم بارک لنا في صاعنا، اللہم بارک لنا في مدّنا، اللہم بارک لنا في مدینتنا، اللہم اجعل مع البرکۃ برکتین، والذي نفسي بیدہ! ما من المدینۃ شعب ولا نقب إلاّ علیہ ملکان یحرسانہا حتی تقدموا إلیہا...إلخ))۔
''صحیح مسلم''، کتاب الحج، باب الترغیب في سکنی المدینۃ...إلخ، الحدیث: ۴۷۵، ص۷۱۳۔۷۱۴.
    مسلمانو! ایمان سے دیکھنا کہ اس شرک فروش کا شرک کہاں تک پہنچتا ہے! تم نے دیکھا اِس گستاخ نے نبی صلی اﷲ تعالیٰ عللیہ  وسلم پر کیا حکم جَڑا...؟! 
    ''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۸: 
    ''پیغمبرِ خدا کے وقت میں کافر بھی اپنے بتوں کو اﷲ کے برابر نہیں جانتے تھے، بلکہ اُسی کا مخلوق اور اس کا بندہ سمجھتے تھے اور اُن کو اُس کے مقابل کی طاقت ثابت نہیں کرتے تھے، مگر یہی پکارنا اور منتیں ماننی اور نذر و نیاز کرنی اور ان کو اپنا وکیل و سفارشی سمجھنا، یہی اُن کا کفر و شرک تھا، سو جو کوئی کسی سے یہ معاملہ کرے، گو کہ اُس کو اﷲ کا بندہ ومخلوق ہی سمجھے، سو ابوجھل اور وہ شرک میں برابر ہے۔'' (1)
    یعنی جو نبی صلی اﷲ تعالیٰ عللیہ  وسلم کی شفاعت مانے، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ عللیہ  وسلم) اﷲ عزوجل کے دربار میں ھماری سفارش فرمائیں گے تو معاذ اﷲ اس کے نزدیک وہ ابو جھل کے برابر مشرک ہے، مسئلہ شفاعت کا صرف انکار ہی نہیں بلکہ اس کو شرک ثابت کیا اور تمام مسلمانوں صحابہ و تابعین و ائمہ دین و اولیا و صالحین سب کو مشرک و ابو جھل بنا دیا۔ 
    ''تقویۃ الایمان'' صفحہ ۵۸: 
    ''کوئی شخص کہے: فُلانے درخت میں کتنے پتے ہیں؟ یا آسمان میں کتنے تارے ہیں؟ تو اس کے جواب میں یہ نہ کہے، کہ

1۔۔۔۔۔۔ ''تقویۃ الایمان''، باب اول، توحید اور شرک کا بیان، ص۲۱:

اﷲو رسول ہی جانے، کیونکہ غیب کی بات اﷲ ہی جانتا ہے، رسول کو کیا خبر۔'' (1) سبحان اﷲ...! خدائی اسی کا نام رہ گیا کہ کسی پیڑ کے پتے کی تعداد جان لی جائے۔ 
    ''تقویۃ الایمان'' صفحہ۷: 
    ''اﷲ صاحب نے کسی کو عالم میں تصرّف کرنے کی قدرت نہیں دی۔'' (2) اِس میں انبیائے کِرام کے معجزات اور اولیا عظام کی کرامت کا صاف انکار ہے۔ 
    اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

 (فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا ۘ﴿۵﴾ )  ـ3ـ

''قسم فرشتوں کی جو کاموں کی تدبیر کرتے ہیں۔'' 
    تو یہ قرآن کریم کو صاف رد کر رہا ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ ''تقویۃ الایمان''، فصل۵: شرک فی العادات کی برائی کا بیان، ص۵۵:

 

2۔۔۔۔۔۔ ''تقویۃ الایمان''، باب اول، توحید اور شرک کا بیان، ص۲۰:

 

3۔۔۔۔۔۔ پ۳۰، النّٰزعٰت: ۵.
    صفحہ ۲۲: ''جس کا نام محمد یا علی ہے، وہ کسی چیز کا مختار نہیں۔'' (1) 
    تعجب ہے کہ وہابی صاحب تو اپنے گھر کی تمام چیزوں کا اختیار رکھیں اور مالکِ ہر دو سَرا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کسی چیز کے مختار نہیں...! 
    اِس گروہ کا ایک مشہور عقیدہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے۔ (2) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ ''تقویۃ الایمان''، باب اول، فصل۴: شرک فی العبادات کی برائی کا بیان، ص۴۳:

 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
2۔۔۔۔۔۔ مولوی رشید احمد گنگوہی اپنی کتاب ''فتاوی رشیدیہ'' میں اللہ عزوجل کے لیے امکان کذب کو ثابت کرتے ہوئے لکھتا ہے :

 

     اور دوسرے مقام پر لکھا:

 

''فتاوی رشیدیہ''، کتاب العقائد، ص۲۱۰ ۔ ۲۱۱.
     اسی طرح اسماعیل دھلوی نے اپنے رسالہ ''یک روزہ'' (فارسی) میں اللہ تعالی کی طرف اِمکان کذب کی نسبت کرتے ہوئے لکھا:

  Ismail Dehlwi said Allah can Speak Lie , This is Allegation to Allah And people with this faith is non muslim

ـــــــــــــــــــــــــــــــ
    یعنی: میں (اسماعیل دھلوی)کہتا ہوں : اگر محال سے مراد ممتنع لذاتہ ہے کہ (جھوٹ) اللہ کی قدرت کے تحت داخل نہیں، پس ہم (اللہ کے لئے) مذکورہ کذب کو محال نہیں مانتے کیونکہ واقع کے خلاف کوئی قضیہ و خبر بنانا اور اس کو فرشتوں اور انبیاء پر القاء کرنا اللہ تعالی کی قدرت سے خارج نہیں ورنہ لازم آئیگا کہ انسانی قدرت اللہ تعالی کی قدرت سے زائد ہوجائے۔ رسالہ ''یک روزہ''، ص۱۷.
    اللہ عزوجل مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے آمین ۔
     ہم اھلسنت وجماعت کے نزدیک اللہ عزوجل کی طرف کذب کی نسبت کرنا منع ہے کہ اللہ عزوجل کے لیے جھوٹ بولنا محال ہے وہ جھوٹ نہیں بول سکتا .
    اللہ تعالی قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے:
    (وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ قِیلْاً ) پ۵، النساء:۱۲۲. ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔
    (وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیْثًا) پ۵، النساء:۸۷. ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ سے زیادہ کس کی بات سچی۔
    في ''تفسیر روح البیان''، ج۲، ص۲۵۵، و''تفسیر البیضاوي''، ج۲، ص۲۲۹، تحت ہذہ الآیۃ: ((وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّہِ حَدِیثًا)، إنکار أن یکون أحد أکثر صدقاً منہ، فإنّہ لا یتطرق الکذب إلی خبرہ بوجہ؛ لأنّہ نقص وہو علی اللہ محال).
     یعنی: اللہ تعالی اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ سے زیادہ سچا ہو ، اس کی خبر میں تو جھوٹ کا کوئی شائبہ تک نہیں اس لیے کہ جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالی کے لئے محال ہے۔ 
    وفي''تفسیر الخازن''، ج۱، ص۴۱۰، تحت ہذہ الآیۃ: (وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیْثًا)، یعني: لا أحد أصدق من اللہ فإنّہ لا یخلف المیعاد ولا یجوز علیہ الکذب).
    یعنی: مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی سے زیادہ کوئی سچا نہیں، بیشک وہ وعدہ کے خلاف نہیں کرتا اور نہ اس کا جھوٹ بولنا ممکن ہے۔ 
    وفي''تفسیر أبي السعود''، ج۱، ص۵۶۱، تحت ہذہ الآیۃ: ((وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللہِ حَدِیْثًا)، إنکارٌ لأن یکون أحدٌ أصدقَ منہ تعالی في وعدہ وسائرِ أخبارِہ وبیانٌ لاستحالتہ کیف لا والکذِبُ مُحالٌ علیہ سبحانہ دون غیرِہ).یعنی: اس آیت سے ثابت ہوا کہ وعدہ، اور کسی طرح کی خبر دینے میں، اللہ تعالی سے زیادہ سچا کوئی نہیں اور اس کے محال ہونے کی وضاحت بھی ہے اور کیسے نہ ہو کہ جھوٹ بولنا اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے محال ہے بخلاف دوسروں کے۔ .
    (فَلَنْ یُّخْلِفَ اللہُ عَہْدَہٗۤ) پ۱، البقرۃ:۸۰. ترجمہ کنز الایمان: جب تو اللہ ہرگز اپنا عہد خلاف نہ کریگا۔
    في ''تفسیر الکبیر''، ج۱، ص۵۶۷، تحت ہذہ الآیۃ: ((فَلَنْ یُّخْلِفَ اللہُ عَہْدَہٗۤ) یدّل علی أنّہ سبحانہ وتعالی منزہ عن الکذب وعدہ ووعیدہ، قال أصحابنا: لأنّ الکذب صفۃ نقص، والنقص علی اللہ محال). 

    یعنی: اللہ تعالی کا یہ فرمانا کہ اللہ ہرگز اپنا عہد خلاف نہ کریگا اس مدعا پر واضح دلیل ہے کہ اللہ تعالی اپنے ہر وعدے اور وعید میں جھوٹ سے پاک ہے ھمارے اصحاب کہتے ہیں کہ جھوٹ صفت نقص ہے اور نقص اللہ تعالی کے لئے محال ہے۔

بلکہ اُن کے ایک سرغَنہ نے تو اپنے ایک فتوے میں لکھ دیا کہ: ''وقوعِ کذب کے معنی درست ہوگئے، جو یہ کہے کہ اﷲ تعالیٰ جھوٹ بول چکا، ایسے کو تضلیل و تفسیق سے مامون کرنا چاہیے'' ۔(1)
    سبحان اﷲ...! خدا کو جھوٹا مانا، پھر بھی اسلام و سنّیت و صلاح کسی بات میں فرق نہ آیا، معلوم نہیں ان لوگوں نے کس چیز کو خدا ٹھہرا لیا ہے! 
    ایک عقیدہ ان کا یہ ہے کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء نہیں مانتے۔(2) اور یہ صریح کفر ہے۔(3)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    في''تفسیر الکبیر''، ج۶، ص ۵۲۱: (المؤمن لا یجوز أن یظن باللہ الکذب، بل یخرج بذلک عن الإیمان). 
     في ''شرح المقاصد''، المبحث السادس في أنّہ تعالی متکلم: (الکذب محال بإجماع العلماء،؛ لأنّ الکذب نقص باتفاق العقلاء وہو علی اللہ تعالی محال اھ)، ملخصاً.
    یعنی: جھوٹ باجماع علماء محال ہے کہ وہ باتفاق عقلاء عیب ہے اور عیب اللہ تعالی پر محال اھ. ملخصاً.
    وفي مقام آخر: (محال ہو جھلہ أو کذبہ تعالی عن ذلک) 
    یعنی: اللہ تبارک وتعالی کا جھل یا کذب دونوں محال ہیں برتری ہے اسے ان سے۔
    وفي شرح عقائد نسفیہ: (کذب کلام اللہ تعالی محال اھ) ملخصاً یعنی: کلام الہی کا کذب محال ہے اھ ، ملخصاً.
    وفي ''طوالع الأنوار'': (الکذب نقص والنقص علی اللہ تعالی محال اھ). یعنی: جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالی پر محال۔ 
    وفي ''المسامرۃ'' بشرح '' المسایرۃ''، ص۲۰۵: (وہو) أي: الکذب (مستحیل علیہ) تعالی (لأنّہ نقص).
    یعنی: اور جھوٹ اللہ تعالی پر محال ہے اس لیے کہ یہ عیب ہے. 
    وفي مقام آخر، ۳۹۳: (یستحیل علیہ سبحانہ سمات النقص کالجھل والکذب). 
    یعنی: جتنی نشانیاں عیب کی ہیں جیسے جھل وکذب سب اللہ تعالی پر محال ہیں۔
    مزید تفصیل کے لیے شیخ الاسلام والمسلمین اعلی حضرت عظیم المرتبت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کا ''فتاوی رضویہ'' میں دیا گیا رسالہ: ''سبحن السبوح عن کذب عیب مقبوح ''، ج۱۵ کا مطالعہ کریں ۔
1۔۔۔۔۔۔ یہ الفاظ اس نے اپنے ایک فتوے میں کہے تھے، اگر کسی کو یہ عبارت دیکھنی ہو تو ہندوستانی حضرات ، پیلی بھیت اور پاکستانی حضرات دارلعلوم حزب الاحناف لاہور میں تشریف لے جاکر اطمینان کرسکتے ہیں۔ 
2۔۔۔۔۔۔ ''تحذیر الناس''، خاتم النبییّن کا معنی، ص۴ ۔ ۵. 
3۔۔۔۔۔۔ في'' الفتاوی الہند یۃ''،کتاب السیر، الباب التاسع فيأحکام المرتدین، ج۲، ص۲۶۳:(سمعت بعضھم یقول: إذا لم یعرف الرجل أنّ محمداً صلی اللہ علیہ وسلم آخر الأ نبیاء علیھم وعلی نبینا السلام فلیس بمسلم کذا في ''الیتیمۃ''). =
 چنانچہ ''تحذیر الناس'' ص ۲ میں ہے: 
    ''عوام کے خیال میں تورسول اﷲ صلعم ۱ ؎ (1) کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے بعد اور آپ سب میں
آخر نبی ہیں، مگر اھلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدّم یا تاخّر میں بالذات کچھ فضیلت نہیں، پھر مقامِ مدح میں (وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ)ـ2ـ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ ہاں! اگر اِس وصف کو اَوصافِ مدح میں سے نہ کہیے اور اِس مقام کو مقامِ مدح نہ قرار دیجیے تو البتہ خاتمیت باعتبارِ تاخّرِ زمانی صحیح ہوسکتی ہے۔'' (3)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
=    وفي ''الشفاء''، فصل في بیان ما ہو من المقالات کفر، الجزء الثاني، ص۲۸۵: (کذ لک من ادعی نبوۃ أحد مع نبینا صلی اللہ علیہ وسلم أو بعدہ (إلی قولہ) فھؤلاء کلھم کفار مکذبون للنبي صلی اللہ علیہ وسلم؛ لأنہ أخبر صلی اللہ علیہ وسلم أنّہ خاتم النبیین لا نبي بعدہ وأخبر عن اللہ تعالی أنّہ خاتم النبیین).
    وفي ''المعتقد المنتقد''، ص۱۲۰:(الحجج التي ثبت بہا بطریق التواتر نبوتہ ثبت بہا أیضاً أنّہ آخر الأنبیاء في زمانہ وبعدہ إلی یوم القیامۃ لا یکون نبي، فمن شک فیہ یکون شاکاً فیہا أیضاً، وأیضاً من یقول إنّہ کان نبي بعدہ أو یکون، أو موجود، وکذا من قال یمکن أن یکون فہو کافر، ھذا شرط صحۃ الإیمان بخاتم الأنبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم). 
۱ ؎ ۔۔۔۔۔۔ ہم کہتے ہیں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم۔ ۱۲
1۔۔۔۔۔۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پاک کے ساتھ صلعم لکھنا یا صرف ص لکھنا ناجاءز و حرام ہے جیسا کہ ''حاشیۃ الطحطاوی '' میں ہے: 
     (ویکرہ الرمز بالصلاۃ والترضي بالکتابۃ، بل یکتب ذلک کلہ بکمالہ، وفي بعض المواضع عن ''التتارخانیۃ'': من کتب علیہ السلام بالھمزۃ والمیم یکفر؛ لأنّہ تخفیف وتخفیف الأنبیاء کفر بلا شک ولعلہ إن صحّ النقل فھو مقید بقصدہ وإلاّ فالظاھر أنّہ لیس بکفر وکون لازم الکفرکفراً بعد تسلیم کونہ مذھباً مختاراً محلہ إذا کان اللزوم بینا نعم الاحتیاط في الاحتراز عن الإیہام والشبہۃ). ''حاشیۃ الطحطاوي'' علی ''الدر المختار''، مقدمۃ الکتاب، ج۱، ص۶۔
     و''الفتاوی الرضویۃ''، ج۶، ص۲۲۱ ۔ ۲۲۲، ج۲۳، ص۳۸۷۔۳۸۸. 
2۔۔۔۔۔۔ پ ۲۲، الأحزاب:۴۰.
3۔۔۔۔۔۔ ''تحذیر الناس''، خاتم النبییّن کا معنی، ص۴ ۔ ۵.


Wahabi Concept about Khatam e Nabuwat 

 بلکہ اُن کے ایک سرغَنہ نے تو اپنے ایک فتوے میں لکھ دیا کہ: ''وقوعِ کذب کے معنی درست ہوگئے، جو یہ کہے کہ اﷲ تعالیٰ جھوٹ بول چکا، ایسے کو تضلیل و تفسیق سے مامون کرنا چاہیے'' ۔(1)
    سبحان اﷲ...! خدا کو جھوٹا مانا، پھر بھی اسلام و سنّیت و صلاح کسی بات میں فرق نہ آیا، معلوم نہیں ان لوگوں نے کس چیز کو خدا ٹھہرا لیا ہے! 
    ایک عقیدہ ان کا یہ ہے کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بمعنی آخر الانبیاء نہیں مانتے۔(2) اور یہ صریح کفر ہے۔(3)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
    في''تفسیر الکبیر''، ج۶، ص ۵۲۱: (المؤمن لا یجوز أن یظن باللہ الکذب، بل یخرج بذلک عن الإیمان). 
     في ''شرح المقاصد''، المبحث السادس في أنّہ تعالی متکلم: (الکذب محال بإجماع العلماء،؛ لأنّ الکذب نقص باتفاق العقلاء وہو علی اللہ تعالی محال اھ)، ملخصاً.
    یعنی: جھوٹ باجماع علماء محال ہے کہ وہ باتفاق عقلاء عیب ہے اور عیب اللہ تعالی پر محال اھ. ملخصاً.
    وفي مقام آخر: (محال ہو جھلہ أو کذبہ تعالی عن ذلک) 
    یعنی: اللہ تبارک وتعالی کا جھل یا کذب دونوں محال ہیں برتری ہے اسے ان سے۔
    وفي شرح عقائد نسفیہ: (کذب کلام اللہ تعالی محال اھ) ملخصاً یعنی: کلام الہی کا کذب محال ہے اھ ، ملخصاً.
    وفي ''طوالع الأنوار'': (الکذب نقص والنقص علی اللہ تعالی محال اھ). یعنی: جھوٹ عیب ہے اور عیب اللہ تعالی پر محال۔ 
    وفي ''المسامرۃ'' بشرح '' المسایرۃ''، ص۲۰۵: (وہو) أي: الکذب (مستحیل علیہ) تعالی (لأنّہ نقص).
    یعنی: اور جھوٹ اللہ تعالی پر محال ہے اس لیے کہ یہ عیب ہے. 
    وفي مقام آخر، ۳۹۳: (یستحیل علیہ سبحانہ سمات النقص کالجھل والکذب). 
    یعنی: جتنی نشانیاں عیب کی ہیں جیسے جھل وکذب سب اللہ تعالی پر محال ہیں۔
    مزید تفصیل کے لیے شیخ الاسلام والمسلمین اعلی حضرت عظیم المرتبت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کا ''فتاوی رضویہ'' میں دیا گیا رسالہ: ''سبحن السبوح عن کذب عیب مقبوح ''، ج۱۵ کا مطالعہ کریں ۔
1۔۔۔۔۔۔ یہ الفاظ اس نے اپنے ایک فتوے میں کہے تھے، اگر کسی کو یہ عبارت دیکھنی ہو تو ہندوستانی حضرات ، پیلی بھیت اور پاکستانی حضرات دارلعلوم حزب الاحناف لاہور میں تشریف لے جاکر اطمینان کرسکتے ہیں۔ 
2۔۔۔۔۔۔ ''تحذیر الناس''، خاتم النبییّن کا معنی، ص۴ ۔ ۵. 
3۔۔۔۔۔۔ في'' الفتاوی الہند یۃ''،کتاب السیر، الباب التاسع فيأحکام المرتدین، ج۲، ص۲۶۳:(سمعت بعضھم یقول: إذا لم یعرف الرجل أنّ محمداً صلی اللہ علیہ وسلم آخر الأ نبیاء علیھم وعلی نبینا السلام فلیس بمسلم کذا في ''الیتیمۃ''). =
چنانچہ ''تحذیر الناس'' ص ۲ میں ہے: 
    ''عوام کے خیال میں تورسول اﷲ صلعم ۱ ؎ (1) کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے بعد اور آپ سب میں
آخر نبی ہیں، مگر اھلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدّم یا تاخّر میں بالذات کچھ فضیلت نہیں، پھر مقامِ مدح میں (وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ)ـ2ـ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے؟ ہاں! اگر اِس وصف کو اَوصافِ مدح میں سے نہ کہیے اور اِس مقام کو مقامِ مدح نہ قرار دیجیے تو البتہ خاتمیت باعتبارِ تاخّرِ زمانی صحیح ہوسکتی ہے۔'' (3)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
=    وفي ''الشفاء''، فصل في بیان ما ہو من المقالات کفر، الجزء الثاني، ص۲۸۵: (کذ لک من ادعی نبوۃ أحد مع نبینا صلی اللہ علیہ وسلم أو بعدہ (إلی قولہ) فھؤلاء کلھم کفار مکذبون للنبي صلی اللہ علیہ وسلم؛ لأنہ أخبر صلی اللہ علیہ وسلم أنّہ خاتم النبیین لا نبي بعدہ وأخبر عن اللہ تعالی أنّہ خاتم النبیین).
    وفي ''المعتقد المنتقد''، ص۱۲۰:(الحجج التي ثبت بہا بطریق التواتر نبوتہ ثبت بہا أیضاً أنّہ آخر الأنبیاء في زمانہ وبعدہ إلی یوم القیامۃ لا یکون نبي، فمن شک فیہ یکون شاکاً فیہا أیضاً، وأیضاً من یقول إنّہ کان نبي بعدہ أو یکون، أو موجود، وکذا من قال یمکن أن یکون فہو کافر، ھذا شرط صحۃ الإیمان بخاتم الأنبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم). 
۱ ؎ ۔۔۔۔۔۔ ہم کہتے ہیں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم۔ ۱۲
1۔۔۔۔۔۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پاک کے ساتھ صلعم لکھنا یا صرف ص لکھنا ناجاءز و حرام ہے جیسا کہ ''حاشیۃ الطحطاوی '' میں ہے: 
     (ویکرہ الرمز بالصلاۃ والترضي بالکتابۃ، بل یکتب ذلک کلہ بکمالہ، وفي بعض المواضع عن ''التتارخانیۃ'': من کتب علیہ السلام بالھمزۃ والمیم یکفر؛ لأنّہ تخفیف وتخفیف الأنبیاء کفر بلا شک ولعلہ إن صحّ النقل فھو مقید بقصدہ وإلاّ فالظاھر أنّہ لیس بکفر وکون لازم الکفرکفراً بعد تسلیم کونہ مذھباً مختاراً محلہ إذا کان اللزوم بینا نعم الاحتیاط في الاحتراز عن الإیہام والشبہۃ). ''حاشیۃ الطحطاوي'' علی ''الدر المختار''، مقدمۃ الکتاب، ج۱، ص۶۔
     و''الفتاوی الرضویۃ''، ج۶، ص۲۲۱ ۔ ۲۲۲، ج۲۳، ص۳۸۷۔۳۸۸. 
2۔۔۔۔۔۔ پ ۲۲، الأحزاب:۴۰.
3۔۔۔۔۔۔ ''تحذیر الناس''، خاتم النبییّن کا معنی، ص۴ ۔ ۵.
    پہلے تو اس قائل نے خاتم النبیین کے معنی تمام انبیا سے زماناً متاخّر ہونے کو خیالِ عوام کہا اور یہ کہا کہ اھلِ فہم پر روشن ہے کہ اس میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ حالانکہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کے یہی معنی بکثرت احادیث میں ارشاد فرمائے (1) تو معاذ اﷲ اس قائل نے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کو عوام میں داخل کیا اور اھلِ فہم سے خارج کیا، پھر اس نے ختمِ زمانی
کو مطلقاً ۱ ؎ فضیلت سے خارج کیا، حالانکہ اسی تاخّرِ زمانی کو حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے مقامِ مدح میں ذکر فرمایا۔ 
    پھر صفحہ ۴ پر لکھا: ''آپ موصوف بوصفِ نبوت بالذات ہیں اور سِوا آپ کے اور نبی موصوف بوصفِ نبوت بالعرض۔'' (2)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ، أنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:((إنّ مثلي ومثل الأنبیاء من قبلي کمثل رجل بنی بیتاً فأحسنہ وأجملہ إلاّ موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھلاّ وضعت ہذہ اللبنۃ قال فأنا اللبنۃ وأنا خاتم النبیین)). 
    ''صحیح البخاري''، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین، ج۲، ص۴۸۴، الحدیث: ۳۵۳۵۔
    وفي روایۃ: عن ثوبان قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((أنّہ سیکون في أمتي ثلا ثون کذابون کلّھم یزعم أنّہ نبي وأنا خاتم النبیین لا نبي بعدي)).
    ''سنن الترمذي''، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، الحدیث: ۲۲۲۶، ج۴، ص۹۳.
    وفي روایۃ: عن حذ یفۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((أنا خاتم النبیین لا نبي بعدي)).
     ''المعجم الکبیر'' للطبراني، الحدیث: ۳۰۲۶، ج۳، ص۱۷۰.
    وفي روایۃ: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ((یا فاطمۃ ونحن أھل بیت قد أعطانا اللہ سبع خصال لم یعط أحد قبلنا، ولا یعطی أحد بعدنا، أنا خاتم النبیین... إلخ)). 
    ''المعجم الکبیر'' للطبراني، الحدیث: ۲۶۵۷، ج۳، ص۵۷۔
    وفي روایۃ: عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال:(( أنا قائد المرسلین ولا فخر، وأنا خاتم النبیین ولا فخر)). 
    ''المعجم الأوسط''، للطبراني، ج۱، ص۶۳، الحدیث: ۱۷۰۔
۱ ؎ ۔۔۔۔۔۔ پہلے تو بالذات کا پردہ رکھا تھا پھر کھیل کھیلا کہ اسے مقامِ مدح میں ذکر کرنا کسی طرح صحیح نہیں تو ثابت ہوا کہ وہ اصلاً کوئی فضیلت نہیں۔ ۱۲ منہ 
2۔۔۔۔۔۔ ''تحذیر الناس''، خاتم النبیین کا معنی، ص۶:
 صفحہ ۱۶: ''بلکہ بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو، جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔'' (1) 
    صفحہ ۳۳: ''بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی بھی کوئی نبی پیدا ہو تو بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا، چہ جائیکہ آپ کے مُعاصِر (2) کسی اور زمین میں، یا فرض کیجیے اسی زمین میں کوئی اور نبی تجویز کیا جائے۔'' (3)     لطف یہ کہ اِس قائل نے اِن تمام خرافات کا ایجادِ بندہ ہونا خود تسلیم کرلیا۔ 
    صفحہ ۳۴ پر ہے: ''اگر بوجہِ کم اِلتفاتی بڑوں کا فہم کسی مضمون تک نہ پہنچا تو اُن کی شان میں کیا نقصان آگیا اور کسی طفلِ نادان (4) نے کوئی ٹھکانے کی بات کہہ دی توکیا اتنی بات سے وہ عظیم الشان ہو گیا...؟! ؎ 
                          گاہِ باشد کہ کو دکِ ناداں
                            بغلط برہدف زنَد تِیرے(5)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ۔۔۔۔۔۔ ''تحذیر الناس''، خاتم النبیین ہونے کا حقیقی مفہوم... إلخ، ص۱۸:

 

2۔۔۔۔۔۔ ہم زمانہ۔ 
3۔۔۔۔۔۔ ''تحذیر الناس''، روایت حضرت عبد اﷲ ابن عباس کی تحقیق، ص۳۴:

 

4۔۔۔۔۔۔ ناسمجھ بچہ ۔ 
5۔۔۔۔۔۔ ممکن ہے کہ نا دان بچہ غلطی سے تیر کو نشانہ پر مارے۔
    ہاں! بعد وضوحِ حق (1) اگر فقط اس وجہ سے کہ یہ بات میں نے کہی اور وہ اَگلے کہہ گئے تھے، میری نہ مانیں اور وہ پرانی بات گائے جائیں تو قطع نظر اِس کے کہ قانونِ محبتِ نبوی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم سے یہ بات بہت بعید ہے، ویسے بھی اپنی عقل و فہم کی خوبی پر گواہی دینی ہے۔'' (2) 
    یہیں سے ظاہر ہو گیا جو معنی اس نے تراشے، سلف میں کہیں اُس کاپتا نہیں اور نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کے زمانہ سے آج تک جو سب سمجھے ہوئے تھے اُس کو خیالِ عوام بتا کر رد کر دیا کہ اِس میں کچھ فضیلت نہیں، اِس قائل پر علمائے حرمین طیبین نے جو فتویٰ دیا وہ ''حُسّامُ الحرمَین'' (3) کے مطالعہ سے ظاہر اور اُس نے خود بھی اسی کتاب کے صفحہ ۴۶ میں اپنا اسلام برائے نام تسلیم کیا۔ (4) 
                                   ع مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری 
    اِن نام کے مسلمانوں سے اﷲ (عزوجل) بچائے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ حق ظاہر ہونے کے بعد۔ 
2۔۔۔۔۔۔ ''تحذیر الناس''، روایت حضرت عبد اﷲ ابن عباس کی تحقیق، ص۳۵:

 

3۔۔۔۔۔۔ اس کتاب کے مصنف شیخ الاسلام والمسلمین اعلی حضرت عظیم المرتبت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن ہیں، یہ ایک فتویٰ ہے جس پر علمائے حرمَین شریفَین کی لاجواب تصدیقات ہیں، اس کا پورا نام ''حُسام الحرمَین علی منحر الکفر والمَین''ہے۔ ا س کتاب کا مطالعہ ہر مسلمان کیلئے مفید ہے۔ 
4۔۔۔۔۔۔ ''تحذیر الناس''، تفسیر بالرائے کا مفہوم ص ۴۵.
    اسی کتاب کے صفحہ ۵ پر ہے: ''کہ انبیا اپنی امّت سے ممتاز ہوتے ہیں تو علوم ہی میں ممتاز ہوتے ہیں، باقی رہا عمل، اس میں بسا اوقات بظاہر امّتی مساوی ہو جاتے ہیں، بلکہ بڑھ جاتے ہیں۔'' (1) 
    اور سنیے! اِن قائل صاحب نے حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم) کی نبوت کو قدیم اور دیگر انبیا کی نبوت کو حادث بتایا۔ 
    صفحہ ۷ میں ہے: ''کیونکہ فرق قِدمِ نبوت اور حُدوثِ نبوت باوجود اتحادِ نوعی خوب جب ہی چسپاں ہوسکتا ہے۔'' (2) 
    کیا ذات و صفات کے سوا مسلمانوں کے نزدیک کوئی اور چیز بھی قدیم ہے...؟! نبوت صفت ہے اور صفت کا وجود بے موصوف محال، جب حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کی نبوت قدیم غیر حادث ہوئی تو ضرور نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم بھی حادث نہ ہوئے، بلکہ ازلی ٹھہرے اور جو اﷲ (عزوجل) و صفاتِ الۤہیہ کے سوا کسی کو قدیم مانے باجماعِ مسلمین کافر ہے۔ (3)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ ''تحذیر الناس''، نبوّت کمالات علمی میں سے ہے، ص۷:

 

2۔۔۔۔۔۔ ''تحذیر الناس''، آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ نبوّت وصف ذاتی ہے، ص۹:

 

3 ۔۔۔۔۔۔ اعلی حضرت عظیم المرتبت مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں : ''باجماع مسلمین کسی غیر خدا کو قدیم ماننے والا قطعا کافر ہے''۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۴، ص۲۶۶:
    اسی طرح ایک اور مقام پر نقل فرماتے ہیں کہ: ''آئمہ دین فرماتے ہیں :''جو کسی غیر خدا کو ازلی کہے باجماع مسلمین کافر ہے''۔'' شفا'' و''نسیم'' میں فرمایا: (من اعترف بإلٰہیۃ اللہ تعالی ووحدانیتہ لکنّہ اعتقد قدیماً غیرہ (أي: غیر ذاتہ وصفاتہ، إشارۃ إلی مذہب إلیہ الفلاسِفۃ من قِدِم العالَمِ والعقول) أو صانعاً للعالَم سواہ (کالفلاسفۃ الذین یقولون: إنّ الواحد لا یصدر عنہ إلاّ واحد) فذلک کلّہ کفر (ومعتقدہ کافر بإجماع المسلمین، کالإلٰہین من الفلاسفۃ والطبائعین)اھ ملخصاً. یعنی: جس نے اللہ تعالی کی الوہیت ووحدانیت کا اقرار کیا لیکن اللہ تعالی کے غیر کے قدیم ہونے کا اعتقاد رکھا (یعنی اللہ تعالی کی ذات وصفات کے علاوہ ، یہ فلاسفہ کے مذہب یعنی عالَم وعقول کے قدیم ہونے کی طرف اشارہ ہے) یا اللہ تعالی کے سوا کسی کو صانع عالَم مانا (جیسے فلاسفہ جو کہ کہتے ہیں واحد سے نہیں صادر ہوتا ہے مگر واحد) تو یہ سب کفر ہے ، (اور اس کے معتقد کے کافر ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے جیسے فلاسفہ کا فرقہ الہیہ اور فرقہ طبائعیہ) اھ، تلخیص (ت) ۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۲۷، ص۱۳۱.                                                   انظر للتفصیل'' الکوکبۃ الشہابیۃ'' ج ۱۵، ص۱۶۷، و'' سل السیوف'' ج ۱۵، ص۲۳۹ في''الفتاوی الرضویۃ''۔
    اِس گروہ کا یہ عام شیوہ ہے کہ جس امر میں محبوبانِ خدا کی فضیلت ظاہر ہو، طرح طرح کی جھوٹی تاویلات سے اسے باطل کرنا چاہیں گے اور وہ امر ثابت کریں گے جس میں تنقیص(1) ہو، مثلاً ''بَراہینِ قاطعہ'' صفحہ ۵۱ میں لکھ دیاکہ: 
    ''نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کو دیوار پیچھے کا بھی علم نہیں۔'' (2) 
    اور اُس کو شیخ محدّثِ دھلوی رحمۃ اﷲ علیہ کی طرف غلط منسوب کر دیا، بلکہ اُسی صفحہ پر وسعتِ علمِ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کی بابت یہاں تک لکھ دیا کہ: 
    ''الحاصل غور کرنا چاہیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علمِ محیطِ زمین کا فخرِ عالَم کو خلافِ نصوصِ قطعیہ کے بِلادلیل محض قیاسِ فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے...؟! کہ شیطان وملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخرِ عالم کی وسعتِ علم کی کونسی نصِ قطعی ہے کہ جس سے تمام نُصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کرتا ہے۔'' (3) 
    جس وسعتِ علم کو شیطان کے لیے ثابت کرتا اور اُس پر نص ہونا بیان کرتا ہے، اُسی کو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کے لیے شرک بتاتا ہے تو شیطان کو خدا کا شریک مانا اور اُسے آیت وحدیث سے ثابت جانا۔ بے شک شیطان کے بندے شیطان کو مستقل خدا نہیں تو خدا کا شریک کہنے سے بھی گئے گزرے، ہر مسلمان اپنے ایمان کی آنکھوں سے دیکھے کہ اِس قائل نے ابلیسِ لعین کے علم کو

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ عظمت و شان گھٹانا۔ 
2۔۔۔۔۔۔ ''براھین قاطعہ'' بجوا ب ''أنوار ساطعہ''، مسئلہ علم غیب، ص۵۵:

 

3۔۔۔۔۔۔ ''براھین قاطعہ'' بجواب ''أنوار ساطعہ''، مسئلہ علم غیب، ص۵۵:

wahabi and salafi's aqeda about ilm ul ghaib
نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کے علم سے زائد بتایا یا نہیں؟ ضرور زائد بتایا! اور شیطان کو خدا کا شریک مانا یا نہیں؟ ضرور مانا! اور پھر اس شرک کو نص سے ثابت کیا۔ یہ تینوں امر صریح کفر اور قائل یقینی کافر ہے۔ کون مسلمان اس کے کافر ہونے میں شک کریگا...؟! 
    ''حفظ الایمان'' صفحہ ۷ میں حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم) کے علم کی نسبت یہ تقریر کی: 
    ''آپ کی ذاتِ مقدّسہ پر علمِ غیب کا حکم کیا جانا، اگر بقولِ زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کُل غیب؟ اگر بعض علومِ غیبیہ مراد ہیں تو اِس میں حضور کی کیا تخصیص ہے؟ ایسا علمِ غیب تو زید وعَمرو، بلکہ ہر صبی ومجنون، بلکہ جمیع حیوانات و بَہائم کے لیے بھی حاصل ہے۔'' (1) 
    مسلمانو! غور کرو کہ اِس شخص نے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کی شان میں کیسی صریح گستاخی کی، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم) جیسا علم زید و عَمرو تو زید و عَمرو، ہر بچے اور پاگل، بلکہ تمام جانوروں اور چوپایوں کے لیے حاصل ہونا کہا۔ کیا ایمانی قلب ایسے شخص کے کافر ہونے میں شک کرسکتے ہیں...؟ ہر گز نہیں! اس قوم کا یہ عام طریقہ ہے کہ جس چیز کو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے منع نہیں کیا، بلکہ قرآن و حدیث سے اس کا جواز ثابت، اُس کو ممنوع کہنا تو درکنار، اُس پر شرک و بدعت کا حکم لگا دیتے ہیں، مثلاً مجلسِ میلاد شریف اور قیام و ایصالِ ثواب و زیارتِ قبور و حاضریئ بارگاہِ بیکس پناہ سرکارِ مدینہ طیبہ، و عُرسِ بزرگانِ دین و فاتحہ سوم و چھلم، و استمداد باَرواحِ انبیا و اولیا اور مصیبت کے وقت انبیا و اولیا کو پکارنا وغیرہا، بلکہ میلاد شریف کی نسبت تو ''براہینِ قاطعہ'' صفحہ ۴۸ ۱ میں یہ ناپاک لفظ لکھے: 
    ''پس یہ ہر روز اِعادہ ولادت کا تو مثلِ ہنود کے، کہ سانگ کَنہیا(2) کی ولادت کا ہر سال کرتے ہیں، یا مثلِ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ ''حفظ الإیمان' '، جواب سؤال سوم، ص۱۳:

 

2۔۔۔۔۔۔کنہیا ہندؤں کے ایک اوتار سِر ی کر شن کا لقب ہے، یہ لوگ ہر سال وقت معیّن پر اُس کی پیدائش کا ڈرامہ کرتے ہیں۔
روافض کے، کہ نقلِ شہادتِ اھلبیت ہر سال بناتے ہیں۔ معاذ اﷲ سانگ (1) آپ کی ولادت کا ٹھہرا اور خود حرکتِ قبیحہ، قابلِ لَوم(2) وحرام و فسق ہے، بلکہ یہ لوگ اُس قوم سے بڑھ کر ہوئے، وہ تو تاریخِ معیّن پر کرتے ہیں، اِن کے یہاں کوئی قید ہی نہیں، جب چاہیں یہ خرافاتِ فرضی بتاتے ہیں۔'' (3)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ یعنی تماشا ۔ 
2۔۔۔۔۔۔ بُری حرکت، ملامت کے لائق۔
3۔۔۔۔۔۔ ''براھین قاطعہ''، نقل فتوی رشید احمد گنگوہی ... إلخ، ص۱۵۲.


 










 



 






 






 







 



 

 












 Ghyr Muqalid Ahl e Hadees ! (Salafi) 



    (۴) غیر مقلدین: یہ بھی وہابیت ہی کی ایک شاخ ہے، وہ چند باتیں جو حال میں وہابیہ نے اﷲ عزوجل اور نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ  وسلم کی شان میں بکی ہیں، غیر مقلدین سے ثابت نہیں، باقی تمام عقائد میں دونوں شریک ہیں اور اِن حال کے اشد دیو بندی کفروں میں بھی وہ یوں شریک ہیں کہ ان پر اُن قائلوں کو کافر نہیں جانتے اور اُن کی نسبت حکم ہے کہ جو اُن کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ ایک نمبر اِن کا زائد یہ ہے کہ چاروں مذہبوں سے جدا، تمام مسلمانوں سے الگ انھوں نے ایک راہ نکالی، کہ تقلید کو حرام و بدعت کہتے اور ائمہ دین کو سبّ و شتم سے یاد کرتے ہیں۔ مگر حقیقۃً تقلید سے خالی نہیں، ائمہ دین کی تقلید تو نہیں کرتے، مگر شیطانِ لعین کے ضرور مقلّد ہیں۔ یہ لوگ قیاس کے منکِر ہیں اور قیاس کا مطلقاً اِنکار کفر(1) تقلید کے منکر ہیں اور تقلید کا مطلقاً انکار کفر۔(2) 
    مسئلہ: مطلق تقلید فرض ہے (3) اور تقلیدِ شخصی واجب۔(4) 
    ضروری تنبیہ: وہابیوں کے یہاں بدعت کا بہت خرچ ہے، جس چیز کو دیکھیے بدعت ہے، لہٰذا بدعت کسے کہتے ہیں اِسے بیان کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بدعتِ مذمومہ و قبیحہ وہ ہے، جو کسی سنّت کے مخالف ومزاحم ہو(5) اور یہ مکروہ یا حرام ہے۔ اور مطلق بدعت تو مستحب، بلکہ سنّت، بلکہ واجب تک ہوتی ہے۔(6) ۔۔۔۔۔۔۔

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ في''الفتاوی الہندیۃ''، الباب التاسع، أحکام المرتدین، ج۲، ص۲۷۱: (رجل قال: قیاس أبيحنیفۃ رحمہ اللہ تعالٰی حق نیست یکفرکذا في ''التتارخانیۃ''). ''الفتاوی الرضویۃ''، کتاب السیر، ج۱۴، ص۲۹۲.
2۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، کتاب السیر، ج۱۴، ص۲۹۰.
3۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۱۱، ص۴۰۴، ج۲۹، ص۳۹۲.
4۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۶، ص۷۰۳ ۔ ۷۰۴.    
5۔۔۔۔۔۔ في''المرقاۃ''، کتاب الإیمان، ج ۱، ص۳۶۸: (قال الشافعی رحمہ اللہ: (ما أحدث مما یخالف الکتاب أو السنۃ أو الأثر أو الإجماع فہو ضلالۃ، وما أحدث من الخیر مما لا یخالف شیأاً من ذلک فلیس بمذموم).
6۔۔۔۔۔۔ في ''المرقاۃ''، کتاب الإیمان،  ج ۱،ص۳۶۸: (قال الشیخ عز الدین بن عبد السلام في آخر کتاب القواعد: البدعۃ إمّا واجبۃ کتعلم النحو لفہم کلام اللہ ورسولہ، وکتدوین أصول الفقہ والکلام في الجرح والتعدیل، وإمّا محرمۃ کمذہب الجبریۃ والقدریۃ والمرجئۃ والمجسمۃ، والرد علی ہؤلاء من البدع الواجبۃ؛ لأنّ حفظ الشریعۃ من ہذہ البدع فرض کفایۃ، وإمّا مندوبۃ کإحداث الربط والمدارس، وکل إحسان لم یعہد في الصدر الأول وکالتراویح أي: بالجماعۃ العامۃ والکلام في دقائق
حضرت امیر المؤمنین عمر فاروقِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تراویح کی نسبت فرماتے ہیں:

((نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ.))(1)

''یہ اچھی بدعت ہے۔'' 
    حالانکہ تراویح سنّتِ مؤکدہ ہے(2)، جس امر کی اصل شرع شریف سے ثابت ہو وہ ہرگز بدعتِ قبیحہ نہیں ہوسکتا، ورنہ خود وہابیہ کے مدارس اور اُن کے وعظ کے جلسے، اس ہیأتِ خاصہ کے ساتھ ضرور بدعت ہوں گے۔ پھر انھیں کیوں نہیں موقوف کرتے...؟ مگر ان کے یہاں تو یہ ٹھہری ہے کہ محبوبانِ خدا کی عظمت کے جتنے اُمور ہیں، سب بدعت اور جس میں اِن کا مطلب ہو، وہ حلال و سنت۔

وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ.

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الصوفیۃ، وإمّا مکروہۃ کزخرفۃ المساجد وتزویق المصاحف یعني عند الشافعیۃ، وأمّا عند الحنفیۃ فمباح، والتوسع في لذائذ المآکل والمشارب والمساکن وتوسیع الأکمام، وقد اختلف في کراہۃ بعض ذلک أي: کما قدمنا،۔۔۔۔۔۔ وقال عمر رضي اللہ عنہ في قیام رمضان: نعمت البدعۃ۔ وروي عن ابن مسعود: ((ما رآہ المسلمون حسناً فہو عند اللہ حسن))، وفي حدیث مرفوع: ((لا یجتمع أمتي علی الضلالۃ)) رواہ مسلم)، ملخصاً.
1۔۔۔۔۔۔ عن عبد الرحمن بن عبد القاري أنّہ قال: خرجت مع عمر بن الخطاب في رمضان إلی المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون یصلي الرجل لنفسہ، ویصلي الرجل فیصلي بصلاتہ الرہط، فقال عمر: (واللہ إني لأراني لو جمعت ہؤلاء علی قاریئ واحد لکان أمثل، فجمعہم علی أبي بن کعب، قال ثم خرجت معہ لیلۃ أخری والناس یصلون بصلاۃ قارئہم فقال عمر: نعمت البدعۃ ہذہ، والتي تنامون عنہا أفضل من التی تقومون یعنی آخر اللیل وکان الناس یقومون أولہ).
    ''الموطأ'' للإمام مالک، کتاب الصلاۃ في رمضان، باب ما جاء في قیام رمضان، الحدیث: ۲۵۵، ج۱، ص۱۲۰. 
    و''صحیح البخاري''، کتاب صلاۃ التروایح، باب فضل من قام رمضان، الحدیث: ۲۰۱۰، ج۲، ص۱۵۷.
2۔۔۔۔۔۔ في ''الدر المختار''، کتاب الصلاۃ، مبحث صلاۃ التراویح، (التروایح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال والنساء إجماعاً). ج۲، ص۵۹۶۔۵۹۷.











سوال نمبر ۷: سلطنت کی حالتِ قوت میں یہ فرقہ غیر مقلّدین پیدا ہوا یا کب اور نکل کر اپنا نام کیا رکھا ؟
جواب :یہ فر قہ، ضعف سلطنت میں پیدا ہوا۔ اپنا نام موحدومحمدی وعامل بالحدیث رکھا اور اہلسنّت نے عرب و عجم میں ان کا نام وہابی اور غیر مقلّد(۱) اور لامذہب رکھاانھوں نے اہلسنّت ہونے کادعوٰی کیا ۔مگر عرب و عجم کے اہلسنّت نے ان کو ''اہل ِ بدعت ''جانا ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔جو کسی کے پیرو کار نہ ہوں ۔مقلد کا معنی پٹہ ڈالنے یا اطاعت کرنے کے ہیں۔آئمہ اربعہ یعنی امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ،امام شافعی رضی اللہ عنہ،امام مالک رضی اللہ عنہ اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کی فقہ پر عمل کرنے والوں کو بالترتیب حنفی،شافعی ،مالکی،حنبلی مقلّدکہتے ہیں ۔ اجماع امّت کی رو سے جو شخص ان چاروں آئمہ میں سے کسی ایک کابھی مقلّدنہیں وہ گمراہ وبددین ہے ۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃکی تحریر ''الفضل الموھبی ''،المعروف رد غیر مقلدین۔

سوال نمبر ۸ :ا س فرقہ کے ظاہر ہونے پر ہندوستان کے علمائے اہلسنّت نے اس کی تردید کی یا نہیں اور علمائے حرمین شریفین سے فتاوٰی اس مذہب کے بطلان پر آئے یا نہیں ؟
جواب : ہاں ۔
سوال نمبر ۹:اس فرقہ جدیدہ کا فتنہ، ہندوستان میں دفعتًا پھیلا یا آہستہ آہستہ اور ہر جگہ اور ہر مقام میں اس کی کثرت ہوئی یاکیا ؟
جواب :اس کافتنہ بتدریج پھیلا ۔ بہت جگہ ابھی تک ان کانام و نشان نہیں اور بعض جگہ چند سال سے گنتی کے لوگ اس مذہب کے ہوئے ہیں ۔ 
سوال نمبر ۱۰ :غیر مقلّدین، اہلسنّت میں داخل ہیں یامبتدع (۱)ہیں اور مبتدع ہیں تو کس دلیل سے ؟
جواب :غیر مقلّدین مبتدع، گمراہ ہیں ۔ علمائے عرب و عجم کا اس پر اتفاق ہے ۔ دیکھو عرب شریف کافتوٰی، ''فتاوی الحرمین '' (۲)جس پر علمائے مکہ و مدینہ کی مُہریں ہیں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔دین میں نئی بات نکالنے والا ،بدعت کرنے والا ۲۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ''اکابرین دیوبند'' رشیداحمد گنگوہی ، قاسم نانوتوی،خلیل احمد انبیٹھوی اور اشرف علی تھانوی علیہم ماعلیہم کو ان کی کفریہ عبارات پر مطلع فرمایااور ان سے توبہ نامہ شائع کرنے کا مطالبہ فرمایالیکن انھوں نے توبہ کرنے کے بجائے حسبِ سابق ان کفریہ عبارات پر مشتمل کتب کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھا،اعلیٰ حضرت رحمۃاللہ علیہ نے ہر علمی میدان میں ان کفریہ عبارات کو چیلنج کیا اور مقابلے کی دعوت دی لیکن ''اکابرینِ دیوبند'' کی طرف سے کسی قسم کی پیش رفت نہ ہوئی۔جن کتابوں میں یہ کفریہ عبارات شائع ہوئیں ان کے نام یہ ہیں (i)تحذیر النّاس
(ii)براہینِ قاطعہ ،(iii)حفظ الایمان ۔یہ کتب آج بھی اسی طرح ان کفریہ عبارات کے ساتھ=
اور کتاب ''فتح المبین'' اور ''جامع الشواھد'' جن پر عرب و ہند کے بہت سے علماء کی مہریں ہیں اور'' طحطاوی حاشیہ درمختار'' (۱)میں ان کے بدعتی ہونے کی تصریح ہے ۔
سوال نمبر ۱۱:فرقہ غیر مقلّدین کیوں کر مذاہب اربعہ(۲) اہلسنّت و جماعت سے خارج ہیں جو بدعتی اور ناری ہوئے بلکہ وہ تو بلا تعیّن چاروں اماموں کی تقلید کرتے ہیں ؟
جواب :یہ غیر مقلّدین کادھوکہ ہے ان کے یہاں تقلید شرک ہے ۔ ان کے پیشوا اسمٰعیل دہلوی اور صدیق حسن خان بھوپالی اسے لکھ گئے ہیں، چاروں اماموں کو حدیث کا مخالف بتاتے ہیں۔ انہیں کی کتاب ''ظفر المبین ''اسی بیان میں ہے، یہ کوئی مسئلہ کسی امام کی تقلید سے نہیں مانتے، اتفاقیہ کوئی موافقت ہوجائے تو دوسری

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
=ان کے مکتبوں سے شائع ہورہی ہیں اور لوگوں کے ایمان میں خرابی کا باعث بن رہی ہیں ۔ بہرحال اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃنے'' تحذیرالناس'' کی اشاعت کے تیس (30)سال بعد،''براھینِ قاطعہ'' کی اشاعت کے تقریباً سولہ (16)سال بعداور ''حفظ الایمان ''کی اشاعت کے قریبًا ایک سال بعد ۱۳۲۰؁ھ میں مذکورہ بالا اشخاص پر ان کفریہ عبارات کی و جہ سے کفر کا فتوی صادر فرمایاجسکی تصدیق ''علمائے حر مین شریفین'' نے فرمائی، انہی تصدیقات کو ''فتاوی حرمین'' کہتے ہیں یہ تصدیقات''حسام الحرمین''کے نام سے اردو ترجمہ کے ساتھ مکتبۃ المدینہ (پرانی سبزی منڈی، فیضانِ مدینہ کراچی) پر بآسانی دستیاب ہیں ۔ 
۱۔حاشیۃ الطحطاوي علی الدر المختار،کتاب الجھاد، باب البغاۃ،ج۲،ص۴۹۴،المکتبۃ العربیۃ،کوئٹہ 
۲۔(i)حنفیہ(ii)شافعیہ (iii)مالکیہ(iv)حنبلیہ

بات ہے اسے اتباع نہیں کہیں گے۔ دیکھو'' توضیح و تلویح (۱)''۔
سوال نمبر ۱۲ :یہ بیا ن کیجئے کہ غیر مقلّدین کے مسائل ایسے بھی ہیں جو مذاہب اربعہ اہلسنّت میں سے کسی کے نزدیک جائز نہ ہوں ؟ 
جواب : بہت مسائل ہیں جیسے ایک جلسہ میں تین طلاقوں سے ایک ہی طلاق پڑنا، وضو میں سرکی جگہ پگڑی کا مسح ، ان کی کتاب ''تحفت المومنین'' میں جو اُن کے پیشوا نذیر حسین کے شاگرد نے بعد نظر ثانی کے مطبع نولکشور میں دوبارہ چھپوائی اس کے صفحہ ۱۷ پرصاف لکھا ہے کہ پھوپھی کے ساتھ نکا ح درست ہے ان کے یہاں خون اور شراب 
اور سور کی چربی ناپاک نہیں ۔ جیسا کہ ان کی ''روضہ ندیہ ''صفحہ ۱۲ وغیرہ سے ثابت ہے ۔
سوال نمبر ۱۳:قیاس ابوحنیفہ کے خلاف و باطل کہنے والے کوکیا لکھا ہے ؟
جواب :''فتاوٰی عالمگیری(۲)'' وغیرہ میں ہے ''جو شخص امام ابوحنیفہ کے قیاس کو حق نہ مانے وہ کافر ہے'' ۔
سوا ل نمبر ۱۴:غیر مقلّدین کے پیشواؤں نے بزرگان دین و فقہائے کرام ومقلّدین مصلائے اربعہ(۳) کی نسبت اور نیزقبہ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔توضیح تلویح،فصل في تقلید الصحابي رضي اللہ عنہ، ج۲،ص۴۹۴،۴۹۳،میر محمد کتب خانہ ،کراچی۔ 
۲۔''الفتاوی العالمکیریۃ المعروفۃ''بالفتاوٰی الھندیہ''مطلب موجبات الکفر الخ،ومنھا ما یتعلق بالعلم و العلماء،ج۲،ص ۷۱ المکتبۃ الرشیدیہ کوئٹہ۔
۳۔ترکوں کے دَورِ حکومت میں حَرَم شریف میں چار مصلّے قائم کئے گئے تھے تاکہ حنفی ،شافعی ،مالکی اور حنبلی فقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان، اپنی اپنی فقہ کے مطابق مسجدِ حرام شریف میں نماز باجماعت اداکرسکیں ،حنفی مصلّٰی شمالی جانب،شافعی مصلّٰی جنوب مشرقی سمت میں، حنبلی مصلّٰی =


Ahl e Hadith Salafi dont belong to Ahl e Sunnat wa Jammah ,Ahl e Hadith are not Sunni !

مبارک (۱)(حضور صاحب لولاک )صلی اﷲعلیہ وسلم کے بارے میں کیالکھاہے ؟
جواب :ان کے پیشوا صدیق حسن خاں وغیرہ نے شرک و بدعت و مشرک لکھاہے ۔ 
سوا ل نمبر ۵ ۱:نواب صدیق حسن خاں نے خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہ کی شان میں کیا بے ادبی کے کلمات لکھے ہیں ؟
جواب :اپنی کتاب ''انتقاد الرجیح'' کے غالباً صفحہ ۶۲پر صریح گمراہ بتایا ہے کہ'' انہوں نے جماعت تراویح کو رواج دیا اور خود اسے بدعت کہہ کر اچھا بتایا حالانکہ کوئی بدعت قابل ستائش نہیں، سب گمراہی ہے ''۔
سوال نمبر ۱۶ :شَیْخَیْنْ کو جو گالی دینے والا ہے اس کے بارے میں اکابر اہلسنّت کی کیا رائے ہے ؟
جواب :جو شخص ابوبکرصدیق یا عمر فاروق رضی اﷲعنہما کو برا کہے بہت سے آئمہ نے اسے کافر کہا ہے ۔ اور اس قدر پر تواجماع ہے کہ ایسا شخص بددین ہے(۲) دیکھو

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
= جنوب مغربی اورمالکی مصلّٰی مغرب کی سمت میں واقع تھا ،بعد ازاں نجدی حکومت نے ان مصلّوں کو اٹھوادیا تھا (حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ باب وقد سئل بعض العلماء عن ھذہ المقامات الخ ، ج۱ ، ص۱۴۶، دارالطباعۃ عامرہ ، مصر) 
۱۔حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ کا گنبد شریف 
۲۔اگرحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کوگالی نکالتا ہے جب تو اس کے کافر ہونے میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں اور اگر صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شیخین کریمین سے افضل بتائے تو پھر گمراہ ہے فتاوی بزازیہ علیٰ ھامش فتاوی الھندیہ ،نوع فیمایتصل بہاج ۶،ص۳۱۹ مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ،سرکی روڈ،کوئٹہ ، فتاوٰی رضویہ جدید،کتاب السّیر،ج ۱۴،ص۲۵۲ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

تنویر الابصار ،درمختار، فتاویٰ عالمگیری ، فتاوی خلاصہ، فتح القدیر ، اشباہ و بحرالرائق، غنیۃ(۱)،عمودالدریہ وغیرہ۔
سوال نمبر ۱۷ :ایسا کہنے والے کو احتیاطاً کافرنہ کہیں تو مبتدع کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب : ضرور مبتدع و گمراہ ہیں ۔
سوال نمبر ۱۸ :حنفیوں کی نماز شافعی المذہب کے پیچھے جائز ہے یانہیں ؟
جواب :اس میں بہت اختلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ شافعی نے اگر فرائض و شرائط حنفی کی رعایت نہ کی تواسکے پیچھے حنفی کی نمازجائز نہیں۔دیکھو ''بحرالرائق''اور ''ردالمحتار''(۲) وغیرہ اور ''فتاویٰ عالمگیری'' وغیر ہ میں یہ بھی قید لگائی کہ وہ حنفی کے ساتھ تعصب (۳)نہ رکھتاہو ، ور نہ اس کے پیچھے نماز منع ہے(۴) ۔
سوال نمبر ۱۹ :حنفیوں کی نماز، غیر مقلّدین کے پیچھے جائز ہے کہ نہیں ؟
جواب : جائز نہیں ہے ۔ اس لئے کہ غیر مقلّدین اہل ہوا (۵)سے ہیں جس کابیان ابھی گزرا۔ اور اہل ہوا کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے ۔'' فتح القدیر شرح ہدایہ'' میں ہے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱ ۔اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت یا صحابیت کا انکار کرنے والابھی کافر ہے ۔(غنیۃ المستملی،فصل الأولی،باب الاِمامۃ،ص۵۱۵،سہیل اکیڈمی لاہور) 
۲۔ ردّ المحتار علی الدرّالمختار،کتاب الصّلاۃ،مطلب:في الاقتداء بشافعي،ج۲،ص۳۶۲، دارالمعرفۃ،بیروت      ۳۔دشمنی،بغض 
۴۔الفتاوٰی العالمکیریہ،کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث، الباب الخامس في الإمامۃ،ج۱ص۸۴،مکتبہ رشیدیہ،سرکی روڈ کوئٹہ۔
۵۔بدمذہب،بدعتی،خواہشات نفسانیہ کی پیروی کرنے والوں میں سے ہیں
کہ امام محمد،امام ابوحنیفہ او ر امام ابو یوسف سے روایت فرماتے ہیں کہ اہل ہوا کے پیچھے نمازناجائز ہے(۱) اور ان کے مذہبی مسئلے اس قدر مخالف ہیں کہ ہمارے مذہب میں نہ ان کی طہارت ٹھیک ہوتی ہے اور نہ نماز، کہ یہ مردار اور سور کی چربی تک کو ناپاک نہیں جانتے ہیں اور کٹورے بھر پانی میں چھ ماشہ پیشاب پڑجائے تو اسے پاک سمجھتے ہیں ۔ ان کامذہب یہ ہے کہ جب تک اتنی نجاست نہ پڑے کہ پانی کا رنگ ، مزہ ، بوبد ل جائے اس وقت تک پانی پاک رہے گا۔ دیکھو غیر مقلّدین کی کتاب ''فتح المغیث'' صفحہ ۵ اور'' طریقہ محمد یہ'' صفحہ ۶،۷۔
سوال نمبر ۲۰ :کیا حرمین شریفین میں چاروں مذہب کے اہلسنّت و جماعت غیر مقلّدوں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ؟
جواب :یہ محض غلط ہے ۔ 
سوال نمبر ۲۱:مولوی نذیرحسین پیشوائے غیر مقلّدین جب مکہ معظمہ گئے تھے حاکم مکہ نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا ؟
جواب :نذیر حسین دہلوی ذوالحجہ     ۱۳۰۰؁ ھ میں مکہ معظمہ گئے،وہاں مخبری ہوئی کہ یہ اور ان کا ایک ساتھی سلیمان جونا گڑھی غیر مقلّد ہیں اور مسجدالحرام میں غیر مقلّدین کے مسائل بیان کرتے ہیں،اس پر دوڑآئی یہ دونوں غیرمقلّد اور ان کے ساتھی گرفتار ہوئے،تین دن حوالات میں رہے پھر دولتِ عثمان نوری پاشا، گورنر ملکِ حجاز کے حضور ان کی پیشی ہوئی وہاں انہوں نے توبہ کی اور حنفی حاکم نے ان سے توبہ نامہ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔فتح القدیر،کتاب الصلاۃ،باب الإمامۃ،ج۱،ص۳۵۴،مکتبہ رشیدیہ،سرکی روڈ،کوئٹہ
لکھوالیا، اس وقت رہائی ہوئی۔یہ خبر میں نے معتبر علماء سے سنی جو اس واقعہ میں موجود تھے۔پھر مکہ معظمہ کے چھپے ہوئے اشتہار دیکھے جووہاں کے مطبع میری میں چھپے تھے،وہ اشتہار پیش کرتا ہوں ۔ پھردوسرا اشتہار مع ترجمہ وہیں مکہ معظمہ میں چھپاوہ بھی پیش کرتا ہوں اور اسکے سوا           ۱۲۹۵؁ھ میں کہ مُظْہِرْ(۱) حج کو گیا تھا،قافلہ کی داخلی کعبہ معظمہ میں تھی، کعبہ معظمہ کادروازہ بہت بلند ہے، خادم اوپر بیٹھے لوگوں کا ہاتھ پکڑ کر داخلی کے لئے کھینچ رہے تھے، ایک مغل کی وضع پر افسر کوبدمذہبی کا شبہ ہوا، جب وہ داخلی کے لئے گیا خادم نے دھمکادیا،اس کے ساتھ کا ایک غیرمقلّد وہابی سفارش کوبڑھا، اَفسر کے حکم سے اس وہابی کے سر پر خادم نے اس زور سے چپت لگائی کہ تمام مسجد میں آواز پہنچی ہوگی،یہ میری آنکھ کا دیکھا ہوا ہے،یہ لوگ جب جاتے ہیں اپنا مذہب چھپاتے رہتے ہیں ورنہ سزاپاتے ہیں ۔ 
سوال نمبر ۲۲:غیر مقلّدین کے بارے میں ''فتاوی الحرمین'' آپ کے پاس ہیں ؟
جواب :اصل دوفتوے پیش کرتا ہوں،نیز ایک کتاب مطبوعہ بمبئی پیش کرتا ہوں۔ 
سوال نمبر ۲۳:آپ تصدیق کرتے ہیں کہ یہ مہریں وہیں کے علماء کی ہیں ؟
جواب :میں تصدیق کرتا ہوں کہ جو مہریں ان فتووں میں ہیں، وہ وہیں کی ہیں ۔
سوال نمبر ۲۴:کیونکراور کس وجہ سے آپ تصدیق کرتے ہیں ؟
جواب :مُظْہِرْ نے یہ بڑا فتوٰی مکہ معظمہ بھیجا تھا اور یہ دوسرا فتوٰی میرے دوست مولوی نذیر حسین احمد خاں صاحب مرحوم نے احمد آباد گجرات سے مدینہ شریف کو بھجوایا تھا وہاں کی مہریں ہوکر بذریعہ مولوی عبدا لحق صاحب مجاور(یعنی مہاجر )کے، ان کے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 (۱)یعنی میں، (امام احمد رضا خاں علیہ رحمۃ الرحمن )
پاس آیااورانہوں نے مجھے بھیجا۔جدہ کالفافہ موجودہے اوراس میں سلطانی ٹکٹ(۱) لگے ہیں پیش کرتاہوں۔بڑا فتوٰی مکہ شریف کی مہریں ہوکربذریعہ مولاناحاجی عبدالرزاق صاحب ''مطوف کعبہ معظمہ'' کے، بمبي مولوی عمر الدین صاحب کو اور ان کے واسطے سے مجھے پہنچا۔جدہ کالفافہ پیش کرتاہوں اور اس کے ساتھ مولانا حاجی عبدالرزاق صاحب مکی کا یہ خط جوپیش کرتا ہو ں، میرے نام آیا اور دوسرا خط اورپیش کرتا ہوں۔ یہ سردار علمائے مکہ معظمہ مولانا محمد سعیدبابصیل نے میرے نام اپنی مہر کے ساتھ مع اسی فتوٰی کے بھیجا۔ اس کی چند سطروں کا خلاصہ، ترجمہ یہ ہے :
    ''کہ یہ خط ہے حضرت اجل(۲) و افضل میرے سردار اور میرے بھا ئی اور میرے معزز حضرت احمد رضاقادری محمدی حنفی کو کہ ان کی سعادت اور جلالت ہمیشہ رہے۔ وہ آداب جو آپ کے رتبہ کے لائق ہیں ہدیہ بھیج کر عرض ہے کہ آپ کا عجالہ(۳)جو آپ نے رافضیوں(۴)،

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔حکومتی ٹکٹ ۲۔جلیل القدر،بہت بزرگ ۳۔رسالہ
۴۔ رافضی کی جمع روافض ہے ،مراد اس سے شیعہ حضرات ہیں ،یہ انتہائی گستاخ اور بے باک فرقہ ہے ،ان لوگوں نے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کی خاطر شرعی احکام کو توڑ موڑ کراور احادیث میں ردوبدل کرکے اپنی فقہ ایجاد کرلی ہے، ان کے عقائد گمراہ کن اور کفریات پر مبنی ہیں مثلاً''(i)مُردے دوبارہ دنیا میں آئیں گے ،(ii)روح دوسرے بدن میں آئے گی (iii) اللہ تعالیٰ کی روح، آئمہ اہل بیت میں منتقل ہوئی ہے (iv)امام باطن خروج کریں گے (v)امام باطن کے خروج تک امر ونہی احکام معطل رہیں گے(vi)حضرت جبریل علیہ السلام سے حضرت علی کے مقابلے میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لانے میں غلطی ہوئی ہے''(معاذاللہ)انہی کفریہ عقائد کی بناء پر ان کی تکفیر نہایت ضروری ہے۔یہ لوگ ملّتِ اسلامیہ سے خارج ہیں اور مرتدین کے احکام ان پر لاگو ہوں گے۔(ماخوذاز'' فتاوی رضویہ ''جدید،ج ۱۴،ص۱۲۸،رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
نیچریوں(۱)،

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔یہ فرقہ، مولوی اسماعیل دہلوی کے معتقدین ومتبعین کا ایک مخصوص ٹولہ ہے اس کا سنگ بنیاد سرسید احمد خان علی گڑھی نے رکھا تھااس کا مرکز'' علی گڑھ کالج'' قرارپایاموصوف کے معاونین میں سر آغاخان،خوا جہ الطاف حسین حالی،علامہ شبلی نعمانی اور مولاناسمیع اللہ خاں دہلوی وغیرہ حضرات تھے۔مذہبی معاملات میں ان کے مِشن کو مولوی چراغ علی ،رائٹ آنریبل،سید امیر علی چنسوری،وقارالملک (نواب مشتاق حسین )،محسن الملک (سید مہدی علی خاں)اور ڈپٹی نذیر احمد وغیرہ نے پروان چڑھانے میں کوئی کسرنہ چھوڑی ،بلکہ ہمہ وقت نیامذہب گھڑنے اور مقدس اسلام کو ذبح کرنے میں مصروف رہے ۔یہ فرقہ، عقیدہ رسالت اور احادیث مطہرہ کے خلاف ایک چیلنج ہے۔قرآنی تعلیمات کے علمبردار ہونے کامدعی لیکن کلام الٰہی کے خلاف پراسرار سازش ہے، دعوٰی مسلمان ہونے کا ہے لیکن ان کے نظریات اسلا می تعلیمات کومسخ کرتے ہیں، نیچری فرقے کے چند عقائد ملاحظہ فرمائیں۔(i)قرآن کی کوئی آیت یا اس کا حکم کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ۔(ii)اجماع وقیاس حجت شرعی نہیں ۔(iii)تقلید واجب نہیں ۔(iv)شیطان یا ابلیس سے مراد کوئی وجود نہیں بلکہ انسان کے نفسِ امارہ یاقوتِ بہیمیہ کا نام ہے ۔(v)چونکہ خبرِ واحد صدق و کذب کا احتمال رکھتی ہے اس لئے اسلام، خبر احاد کی بناء کئے جانے والے اعتراضات کا جوابدہ نہیں ۔(vi)کفار کی وضع وقطع اختیار کرنا شرعاً ممنوع نہیں ۔(vii)معراج اور شقِ صدر کے واقعات خواب میں پیش آئے ۔(viii)حضرت آدم علیہ السلام ،ملائکہ اور ابلیس کا جو قصہ قرآن میں ذکر ہو اوہ کسی واقعہ کی خبرنہیں بلکہ ایک تمثیل ہے۔(ix)معجزہ، نبوت کی دلیل نہیں ہوسکتا۔ (x)رؤیتِ باری تعالیٰ کسی طرح بھی ممکن نہیں ۔(xi)پرامیسٹری نوٹوں پر سود لینا جائز ہے۔ (xii)شہدا زندہ نہیں ہوتے۔(xiii)حضرت عیسٰی علیہ السلام کا بن باپ کے پیدا ہونا کسی آیت سے ثابت نہیں ۔(xiv)چور کے لئے ہاتھ کاٹنے کی سزا جوقرآن میں بیان ہوئی، ضروری نہیں۔ (xv)قرآن میں ذکر کردہ جِنّات سے مراد صحرائی لوگ ہیں نہ کہ دیو ،بھوت وغیرہ( ملخص از برطانوی مظالم کی کہانی عبدالحکیم خاں اختر شاہجہانپوری کی زبانی،جنرل پرنٹرز،لاہور)
وہابیوں(۱)، غیرمقلّدوں(۲) گمراہ فرقوں کے رد کے لئے تالیف کیا،یہاں پہنچامجھے نہایت پسند آیا اور میں نے اس کے آخر میں وہ لکھ دیا جو اس کے لئے لازم تھا۔تحریر ۲۲ربیعُ الاوّل ۱۳۱۷؁ھ محمد سعید بن بابصیل 
                  مفت شافعیّہ سردار علمائے مکّہ معظمہ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔محمد بن عبدالوھاب نجدی کے ماننے والوں کو وھابی یا نجدی کہتے ہیں اس فرقہ کے لوگ، خیالاتِ باطلہ اور عقائدِ فاسدہ رکھتے ہیں، ابن عبد الوھاب نجدی نے اہل سنت وجماعت سے قتل و قتال کو جائز قرار دیا ،ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنانا بھی جائز کہا۔سلف صالحین کی شان میں گستاخی وبے ادبی کو اپنا وطیرہ خاص بنایا ،تمام مسلمانانِ عالم کو مشرک قرار دیا اور ان سے ان کے اموال چھین لینا حلال اور جائز بلکہ واجب قراردیا،اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے بارے میں کہا کہ'' وہ مر کرمٹی ہوگئے 'ان کو کچھ خبر نہیں''،''نبی علیہ السلام کا نماز میں خیال آجائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے اور بیل گدھے کا آئے تو نہیں ٹوٹتی ''۔''شیطان کا علم' حضور علیہ السلام کے علم سے بڑھ کر ہے ''۔''خدا جھوٹ بول سکتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ''وغیرہ وغیرہ (ملخص از تاریخ نجد وحجاز از مفتی محمد عبدالقیوم قادری قدس سرہ، ،ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور )
۲۔غیر مقلدیت بھی وہابیت کی ایک شاخ ہے چند عقائد کے علاوہ باقی تمام عقائد میں شریک ہیں اور ان حال کے، اشد دیوبندی کفروں میں بھی وہ یوں شریک ہیں کہ ان قائلوں کو کافر نہیں جانتے اور ان کی نسبت حکم ہے کہ جو ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے، غیر مقلدین حضرات نے چاروں مذہبوں سے جدا تمام مسلمانوں سے الگ ایک نئی راہ نکالی ہے کہ تقلید کو حرام وبدعت کہتے ہیں اور آئمہ دین کو گالیاں دیتے ہیں لیکن حقیقتاًیہ تقلید سے خالی نہیں کیونکہ یہ آئمہ دین کی تقلید توکرتے نہیں مگر شیطان لعین کے ضرور مقلِّد ہیں اسی طرح یہ لوگ قیاس کے بھی منکر ہیں اور حکم شرعی کی روسے قیاس کا مطلقًا انکار کفر ہے ۔    
(ملخص از بہار شریعت جہیز ایڈیشن،حصہ اول، ص۶۱، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی )
 Ahl e  Hadtih Salafi are Kafir ! 

سوال نمبر ۲۵ :غیرمقلّدین کی بدعت ،لزوم کفر تک پہنچی ہے یا نہیں ؟
جواب :بہت وجہ سے پہنچی ہے ۔ تین وجہیں یہ کہ غیر مقلّدین، اجماع (۱)اور قیاس(۲) اور تقلید(۳) کے مُنکِر ہیں ۔جیسا کہ ان کی کتابوں سے ظاہر ہے او ر ان

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔اجماع کا لغوی معنٰی پختہ اور اتفاق ہے اصطلاحِ شرع میں اس کا معنٰی یہ ہے کہ ہرزمانے کے عادل ومجتہد علماء اہل سنت کا کسی حکم پر متفق ہوجا نا ،اجماع 'ضروریات دین'' میں سے ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے، اس کا منکرکافر ہے۔( ملخص ازاعتقاد الأحباب فی الجمیل المعروف دس عقیدے، ص۷۷ فرید بکسٹال لاہور و ملخص از فتاوٰی رضویہ، جدید،کتاب السّیر، ج۱۴، ص۲۵۴رضا فاؤنڈیشن لاہو ر) 
۲۔قیاس کا لغوی معنٰی، اندازہ لگانا ہے اور اصطلاحِ شرع میں قیاس یہ ہے کہ کسی منصوص علیہ(جس کے بارے میں قرآن پاک یا حدیث شریف میں واضح حکم ہو )کے حکم کو اس معنٰی کی بنیاد پر جو اس حکم کے لیے علت بنتا ہے غیر منصوص کے لئے ثابت کیا جائے۔مثلاً نص سے ثابت ہے کہ غلاموں کے لئے گھر میں آنے جانے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں کیونکہ اس میں حرج پیدا ہوتا ہے تو اس پر قیاس کرتے ہوئے بلّی کے جھوٹے کو ناپاک قرارنہیں دیا بلکہ مکروہ کہا کیونکہ اس کا بھی گھروں میں آنا جانا ہے ۔''فتاوی رضویہ'' میں ہے قیاس حجت شرعی ہے اور اس کا مطلقا ًانکار کفر ہے(ملخص از فتاوٰی رضویہ، جدید،کتاب السّیر ج۱۴،ص۲۹۲ رضا فاؤنڈیشن لاہور) ۳۔تقلید کی دو قسمیں ہیں (i)تقلید محض (ii)تقلید شخصی۔(i)تقلید محض:۔ (مطلق)کو آئمہ کرام نے ضروریاتِ دین میں شمار فرمایا (انظر فتاوی رضویہ ، جدید، کتاب السیر ج۱۴، ص۲۹۰۔۲۹۱)
اور ضروریاتِ دین کا منکر مسلمان نہیں (واللہ أعلم بالصواب و رسولہ أعلم) (ii) تقلیدشخصی:۔ یعنی کسی غیر مجتہد شخص کو آئمہ اربعہ، امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک امام کی تقلید اس طرح واجب ہے کہ وہ اس امام کے تمام احکام میں اس کا مقلدہو،مقلد شخص کے لئے کسی مسئلہ میں ایک امام کی تقلید کرنا اور کسی مسئلہ میں دوسرے امام کی تقلید کرنا حرام ہے۔تقلیدشخصی کا=
کے پیشوانواب صدّیق حسن خاں نے لکھا ہے کہ : ''قیاس باطل و اجماع بے اثر آمد''۔
اور ہمارے آئمہ، تصریح فرماتے ہیں کہ'' اجماع ،قیاس و تقلید ضروریاتِ دین (۱)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
=انکار مکروہ تحریمی اور اس کا منکر گمراہ ہے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں کہ'' کسی غیر مجتہد (یعنی عام آدمی)کو یہ اختیار نہیں کہ اپنی رائے سے کسی حدیث متعلقِ احکامِ فرعیہ مرویہ کتب حدیث پر عمل کرے''(عقائدِ حقہ اہل سنّت وجماعت، صفحہ۱۳،رضا اکیڈمی بمبئی)
۱۔ضروریاتِ دین وہ مسائل ہیں جن کوہر خاص وعام جانتے ہیں، جیسے اللہ عزّوجل کی وحدانیت، انبیائ( علیہم السلام) کی نبوت،جنت ونار،حشرو نشروغیرہا (بہار شریعت جہیز ایڈیشن،حصہ اول، عقائد کابیان، ایمان وکفر کابیان،ج 1،ص۴۴مکتبہ رضویہ،آرام باغ کراچی)،مذکورہ مسائل میں سے کسی میں بھی شک وشبہ یا تامل کی گنجائش ہرگز نہیں،جو شخص ان چیزوں کو تو حق کہے اور ان لفظوں کا اقرار کرے مگر ان کے لئے نئے معنٰی گھڑے مثلاً یوں کہے کہ جنّت ودوزخ وحشر و نشروثواب وعذاب سے ایسے معنٰی مراد ہیں جو ان کے ظاہر الفاظ سے سمجھ میں نہیں آتے یعنی ثواب کے معنٰی اپنے حسنات (نیکیوں )کو دیکھ کر خوش ہونااور عذاب،اپنے برے اعمال کو دیکھ کرغمگین ہونا ہے یا یہ کہ وہ روحانی لذّتیں اور باطنی معنٰی ہیں، وہ یقینا کافر ہے کیونکہ ان امور پر قرآن پاک اور حدیث شریف میں کھلے ہوئے ارشادات موجود ہیں۔ یونہی یہ کہنا بھی کفر ہے کہ پیغمبروں نے اپنی اپنی امتوں کے سامنے جو کلام،کلامِ الٰہی بتاکر پیش کیا وہ ہرگز کلامِ الٰہی نہیں تھا بلکہ وہ سب انہیں پیغمبرں کے دلوں کے خیالات تھے جو فوارے کے پانی کی طرح ان کے قلوب سے جوش مار کر نکلے اور پھر انہیں کے دلوں پر نازل ہوگئے ۔
    یونہی یہ کہنا کہ نہ دوزخ میں سانپ،بچھو اور زنجیریں ہیں ،اور نہ وہ عذاب، جن کا ذکر مسلمانوں میں رائج ہے،نہ دوزخ کاکوئی وجود خارجی ہے بلکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے جو کلفت(تکلیف)روح کو ہوئی تھی بس اسی روحانی اذیت کا اعلیٰ درجہ پر محسوس ہونا اسی کا نام دوزخ اور جہنم ہیں یہ سب کفر قطعی ہے ۔یونہی یہ سمجھنا کہ نہ جنت میں میوے ہیں نہ باغ ،نہ محل=
سے ہیں''۔ دیکھو ''کشف الاسرار ''امام عبدالعزیز بخاری(۱) ،مطبع قسطنطنیہ اور '' فصول البدائع'' مطبع استنبول اورمواقف وشرح مواقف اور فواتح وغیرہ اور ضروریات دین کامنکر مسلمان نہیں ہے ۔ دیکھو تنویر الابصار اوردرمختار اور شرح فقہ اکبر اور ادلام، امام ابن حجر اور بحرالرائق اور ردالمحتار (۲)وغیرہ وغیرہ ۔ چوتھے یہ کہ ان کے امام ،اسمٰعیل دہلوی نے ایضاح الحق میں اﷲتعالیٰ کو مکان وجہت سے پاک ماننے کے عقیدہ دینی کو بدعت حقیقی بتایا(۳) اور یہ کلمہ کفر ہے ۔ دیکھو فتاویٰ قاضی
 Wahabies Ahl e Hadith  dont belive in Jannat ! Jannah ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
=ہیں ،نہ نہریں ہیں ،نہ حوریں ہیں، نہ غلمان ہیں ،نہ جنت کا کوئی وجو دِخارجی ہے بلکہ دنیامیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی جو راحت روح کو ہوئی تھی بس اسی روحانی راحت کا اعلیٰ درجہ پر حاصل ،ہونا اسی کانام جنت ہے۔یہ بھی قطعًا کفر ہے ۔یونہی یہ کہنا کہ اللہ عزوجل نے قرآن عظیم میں جن فرشتوں کا ذکر فرمایاہے، نہ ان کاکوئی اصل وجود ہے، نہ ان کاموجود ہونا ممکن ہے ،بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر مخلوق میں جومختلف قسم کی قوتیں رکھی ہیں جیسے پہاڑوں کی سختی ،پانی کی روانی،نباتات کی فراوانی ،بس انہیں قوتوں کانام فرشتہ ہے، انسان میں جو نیکی کرنے کی قوتیں ہیں بس وہی اس کے فرشتے ہیں یہ بھی بالقطع والیقین کفر ہے ۔
    یونہی جن وشیاطین کے وجود کا انکار اور بدی کی قوت کانام جن یاشیطان رکھنا کفر ہے اور ایسے اقوال کے قائل یقینا کافر اور اسلامی برادری سے خارج ہیں ۔ماخوذ از اعتقاد ا لأحباب فی الجمیل،المعروف دس عقیدے، از اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن، ص ۷۷ تاص۸۱،مطبوعہ فرید بک اسٹال لاہور ) 
۱۔انظر التخاریج والدلائل فی الفتاوی الرضویہ جدید ، ج۱۴، ص۲۸۸تا ۲۹۳،۲۔ رد المحتار 
۳۔ایضاح الحق( از اسماعیل دہلوی) صفحہ ۳۶،۳۵مطبع فاروقی میں ہے ''تنزیہاوتعالیٰ از زمان ومکان جہت واثبات رویت بلاجہت ومحاذات ہمہ ازقبیل بدعات حقیقہ است ''(یعنی=
خاں وفتاویٰ عالمگیری(۱)وغیرہ۔پانچویں،ان کے امام مذکورنے'' تقویۃ الایمان''(۲) میں انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی شان میں سخت گستاخی کے کلمے لکھے اوریہ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
=اللہ تعالیٰ کو زمان و مکان وجہت سے پاک جاننا اور اس کا دیدار بلا کیف ماننا بدعت وگمراہی ہے)صدرالشریعہ ،بدر الطریقہ مولاناامجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ'' اللہ کا دیدار بلاکیف ماننا اور زمان و مکان وجہت سے پاک جاننا، تمام اہل سنت وجماعت کا عقیدہ ہے تواس قائل (اسماعیل دہلوی) نے تمام پیشوایانِ اہل سنت کو گمراہ وبدعتی قرار دیا۔بحرالرائق ،درمختار،عالمگیری میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے جو مکان ثابت کرے کافر ہے ۔(بہارشریعت جہیز ایڈیشن،حصّہ اول ،ج ۱،ص۵۵، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی ) 
۱۔ الفتاوٰی العالمکیریہ، کتاب السیر،الباب التاسع فيأحکام المرتدین،ومنھا ما یتعلق بذات اللہ تعالٰی،ج۲،ص۲۵۹،المکتبۃ الرشیدیۃ،سرکی روڈ ،کوئٹہ۔
۲۔''تقویۃالایمان''نہایت متنازعہ اور رسوائے زمانہ کتاب ہے،یہ درحقیقت محمدبن عبدالوھاب نجدی کی تصنیف''کتاب التوحید''کا ایمان سوز ترجمہ ہے جو کہ اسماعیل دہلوی کا سیاہ کارنامہ ہے اس'' تقویۃ الایمان'' ہی کی وجہ سے پاک وہند میں نئے نئے فرقوں نے جنم لیا اور لے رہے ہیں اس کی چند ایک عبارتوں کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔(i)جس کانام محمد یا علی ہے وہ کسی چیز کا مختار نہیں (ii)حضور علیہ السلام مرکر مٹی میں مل گئے (iii)حدیث شریف میں جس ہوا کے متعلق ارشاد فرمایا گیا تھا کہ ایک ہو اچلے گی اور سارے مسلمانوں کو اٹھالے گی وہ ہواچل چکی ہے لہٰذ ااب دنیا میں کوئی مسلمان نہ رہا (لیکن اس نے یہ نہ سوچاکہ اس صورت میں توخودبھی کافر ہوگیا)(iv)انبیاء کرام واولیائے عظام کو چوہڑے وچمار سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھا کہ ان سے کسی حاجت روائی کی تو قع نہیں رکھنی چاہیئے۔(v)رزق میں وسعت ،تندرستوں کو بیمار اور بیماروں کو تندرست کرنااور مشکل کشائی، یہ سب اللہ کی شان ہے کسی نبی ،ولی یابھوت ،پری کی=
کفرہے۔دیکھو ''شفاشریف''قاضی عیاض(۱)اور''سیف المسلول'' امام سبکی وغیرہ۔ چھٹی اسی ''تقویۃ الایمان ''میں ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے متعلق مرکرمٹی میں مل جانا(۲) لکھا ہے اوراماموں نے تصریح فرمائی ہے کہ یہ ''کفر'' ہے ۔ دیکھو '' شرح مواہب'' علامہ زرقانی، مطبع مصر ۔ساتویں یہ کہ سارا فرقہ تقلید کوشرک اور مسلمان مقلّدین کومشرک کہتا ہے اور یہ کلمہ کفر ہے ۔ دیکھو درمختارو درروغررومجمع الانہر و عالمگیری (۳)و شرح فقہ اکبر وغیرہ ۔ 
سوال نمبر ۲۶ : ایسے مبتدع کے پیچھے نماز جائز ہے یاکیا ؟
جواب :محض باطل ہے ۔دیکھو شرح فقہ اکبر و فواتح، شرح مسلم وفتح القدیر، شرح ہدایہ (۴)وغیرہ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
=یہ شان نہیں جوان کے لیے ایسا تصرف مانے وہ مشرک ہے۔ (vi)حرمِ مدینہ کے ادب واحترام کو شرک قرار دیا (vii)حضور علیہ السلام کے دور میں بھی کافر بتوں کو اللہ کے برابر نہیں سمجھتے تھے۔ان کی نذر و نیاز کرتے اور منتیں مانگتے تھے اس لئے وہ مشرک ٹھہرے سو جو آج بھی کوئی کسی کوسفارشی سمجھے یاکسی سے مدد چاہے گواس کو اللہ کا بندہ سمجھے، ابو جہل کے برابر مشرک ہے۔ (xx)اللہ عزوجل کے سوا کسی کو غیب کا علم نہیں ۔(ملخص از بہار شریعت، حصہ اول،وہابیہ کے عقائد وکفریات( 
۱۔ الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم،فصل فی بیان ما ھو من المقالات کفر، ج۲،ص۲۴۶،عبد التّواب اکیڈمی،ملتان
۲۔تقویۃ الإیمان،ص۸۱،شمع بُک ایجنسی،اردو بازار، لاہور
۳۔الفتاوٰی العالمکیریۃ     ۴۔فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ،ج۱،ص۳۵۴،مکتبہ رشیدیہ،سرکی روڈ،کوئٹہ
سوال نمبر ۲۷ :مسلمان کوگالی دینا فسق ہے کہ نہیں اور مسلمان کو برا کہنے والا فاسق ہے کہ نہیں ؟
جواب :فاسق ہے ''صحیح بخاری شریف'' میں اس کی حدیث (۱)ہے ۔
سوال نمبر ۲۸ :بدعتی و فاسق کی امامت مکروہ وممنو ع ہے یا نہیں۔ اس کی کیا سندیں ہیں ؟
جواب :ہاں مکروہ ہے ۔ دیکھوطحطاوی درمختار اور طحطاوی مراقی الفلاح اور تبیین الحقائق امام زیلعی اور ردالمحتار اور غنیۃ(۲)اور صغیری اور فتح المبین وغیرہ ۔ 
سوال نمبر ۲۹:لامذہبی فسق ہے یانہیں ؟
جواب :لامذہبی ہرفسق سے بدتر فسق ہے کہ یہ بدمذہبی ہے ۔دیکھو ''غنیۃ''(۳) ۔ طبع قسطنطنیہ ۔
سوال نمبر ۳۰ :امام بنانا دینی تعظیم ہے کہ نہیں ؟اور مبتدع کی دینی تعظیم حرام ہے یا نہیں ؟
جواب :ہاں ۔دیکھو رد المحتار اور فتح و طحطاوی(۴) اور زیلعی وغیرہ اور مشکوٰۃ شریف

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔ صحیح البخاري کتاب الإیمان،باب خوف المؤمن من أن یحبط ألخ، 
ج۱،ص۳۰ ،رقم الحدیث:۴۸،دار الکتب العلمیۃ،بیروت
۲۔ردالمحتار مع الدر المختار،کتاب الصلاۃ،باب الإمامۃ،مطلب:البدعۃ خمسۃ أقسام،ج۱،ص۶۰۴،دار الفکر،بیروت 
۳۔''غنیۃ المستملي''المشتھر بحلبي کبیر، فصل الإمامۃ،بحث:الأولی بالإمامۃ،ص۵۱۴،سہیل اکیڈمی لاھور۔
۴۔ردالمحتار علی الدر المختار،کتاب الصلاۃ،باب الإمامۃج ۲، ص۳۵۶۔۳۵۵، دارالمعرفۃ،بیروت،لبنان

وغیرہ میں حدیث ہے کہ'' جوکسی بدعت والے کی تعظیم کرے بے شک اس نے اسلام کے ڈھانے میں مدد دی'' (۱)۔
سوال نمبر ۳۱:کوئی حدیث صحیح پیش کرسکتے ہیں جس سے ظاہر ہوکہ مبتدع فاسق کی امامت مکروہ ونادرست ہے ؟
جواب :ایک حدیث صحیح جو ابھی گزری اور صحاح ستہ سے سنن ابن ماجہ میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا : لاَ یؤمُّ فاجرٌمومناً إلا أن یقھرہ بسلطان،یخاف سیفہ وسوطہ(۲) کوئی فاسق کسی مسلمان کی امامت نہ کرے مگر اس حالت میں کہ وہ اپنی سلطنت کے زور سے اسے دبائے کہ یہ اس کی تلوار اور تازیانے کاخوف رکھتاہو۔ 
سوال نمبر۳۲:جس طرح نمازحنفی کی،شافعی کے پیچھے جائزہے تو اسی طرح غیر مقلّدوں کے پیچھے کیوں نہیں جائز ہے اگر وہ بھی رعایت مذہب مقتدی کرلیویں ؟
جواب :شافعیہ اہلسنّت ہیں، ان پر غیر مقلّدوں کا قیاس نہیں ہوسکتا۔یہیں دیکھئے، حضرت مولانا محمد سعید بابصیل سردار علمائے مکہ معظمہ شافعی المذہب ہیں انہوں نے اور دیگر مذاہب اہلسنّت کے مفتیان عرب نے ان غیر مقلّدوں کو بالاتفاق ''گمراہ'' لکھا ہے، ابھی میں شافعیہ کی نسبت بھی فتاویٰ عالمگیری کا حوالہ دے چکا ہوں کہ حنفی

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔مشکاۃالمصابیح،کتاب الإیمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، ص۳۱،قدیمی کتب خانہ ،آرام باغ،کراچی
۲۔ سنن ابن ماجۃ،کتاب : إقامۃ الصلاۃ،باب في فرض الجمعۃ،ج۲،ص۵،رقم الحدیث:۱۰۸۱
،دار المعرفۃ،بیروت۔
سے تعصب رکھیں تو ان کے پیچھے بھی نماز منع ہے نہ کہ غیر مقلّدین کہ بدمذہب ہیں اور بدمذہب بھی ایسے جن میں بہت کفریہ بدعتیں ہیں اور حنفیہ سے تعصب اتنا کہ ان کو ''مشرک'' کہتے ہیں ۔
سوال نمبر ۳۳:بعض عبارات فقہا میں، مثل شامی وغیرہ کے جومذکور ہے کہ نماز، بِرّ وفاجر کی اقتدا میں جائز ہے ۔ علی ھٰذا حدیث ''صلوا خلف کل بِرّ و فاجر''(۱) اس جواز سے کیامراد ہے ؟
جواب : یہ جواز اس معنٰی پر ہے کہ فرض اتر جائے گا، نہ یہ کہ کوئی کراہت نہیں ۔ میں انہیں شامی کے دو اقوال سے بیان کرچکاکہ'' فاسق و مبتدع کے پیچھے نماز مکروہ ومنع ہے ''۔اصل بات یہ ہے کہ نمازِ عام کی امامتِ سلاطین خود کرتے ہیں یا وہ ،جسے وہ مقرر کریں اور بعض وقت حُکّام بد مذہب یافاسق بھی ہوئے، اُن کے پیچھے نماز پڑھنے سے وہی اندیشہ تھا تلوار اور تازیانہ کا،جوحدیث میں گزرا ۔ اسی بنا پر یہ حدیث آئی ہے کہ ضرورت کے وقت ان کے پیچھے پڑھ لے ۔او ر علماء نے فرمایا ہے کہ'' یہ حکم اس صورت میں ہے کہ اس کافسق حدِ کفر تک نہ پہنچا ہو اور کوئی مردصالح موجودنہ ہو ''۔ دیکھو'' اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ''(۲)او ر پھر اس حدیث کے نیچے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱۔حدیث کا ترجمہ :ہر نیک و فاسق کے پیچھے نماز پڑھو(کشف الخفاء،الجزء الثاني،ص۲۶،رقم الحدیث:۱۶۰۹،دارالکتب العلمیۃ، بیروت)
۲۔أشعۃ اللمعات،کتاب الصلاۃ ،باب الإمامۃ،ج۱،ص۵۱۷،مکتبہ رشیدیہ،سرکی روڈ ، کوئٹہ