یہ انجمن غلامان مُحمّد ﷺ کی آفیشیل ویب سائٹ ہے
!

Munkir e Hadees

A clear answer to mustashriqeen ,Mulhideen,Quranists! Answers for Ahl e Quran ! People not accepting Hadith and answers of their allegations an obection

People not accepting hadith Munkir e Hadees calling them Ahle Quraan






























Hadesen Haq heyn ! Ahadees ki Zarurat aur Dalail


شُبہ نمبر۱:۔ قرآن مکمل کتاب ہے اور اس میں ہر چیز کا بیان ہے پھر حدیث کی کیا ضرورت، نیز اس کا سمجھنا بھی آسان ہے ۔ رب فرماتا ہے: \'\' وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ \'\'

شُبہ کا ازالہ :۔ بے شک قرآن مکمل کتاب ہے مگر اس مکمل کتاب سے لینے والی کوئی مکمل ہستی چاہیے۔ اَور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سمندر سے موتی ہر شخص نہیں نکال سکتا شناور کی ضرورت ہے۔ قرآن حفظ کے لیے آسان ہے کہ بچے بھی یاد کرلیتے ہیں نہ کہ مسائل نکالنے کے لیے اِسی لیے لِلذِّکرِ فرمایا گیا یعنی یاد کرنے کے لیے۔

شبہ نمبر ۲:۔ رسُول ربّ کے قاصد ہیں جن کا کام ڈاکئے کی طرح رب کا پیغام پہنچاناہے۔ نہ کہ کچھ سمجھانااور بتانا ۔ رب فرماتا ہے : \'\' لَقَدْجَآءَ کُمْ رَسُوْل \'\'

شبہ کا ازالہ :۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رسول بھی ہیں خدائی کے معلّم بھی ، مسلمانوں کو پاک سُتھرا فرمانے والے بھی رب نے فرمایا: \': \\\'\\\' وَیُزَکِّیھِمْ وَیُعَلِّمْھُم الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ \\\'\\\'کیا بعض آیات پر ایمان ہےبعض پر نہیں۔ مشین کا استعمال سکھانے کے لیے مشین والوں کو کارخانے کی طرف سے کتاب بھی دی جاتی ہے اور معّلم بھی بھیجے جاتے ہیں۔
کارخانۂ قدرت کی طرف سے ہمیں جسم کی مشین دی گئی ۔ اس کا استعمال سکھانے کے لیے کتاب قرآن شریف اور معلم حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے۔

معلّم خدائی کے وہ بن کے آئے جھُکے اُن کے آگے سب اپنے پرائے


Aitraz k Mojuda Ahadees ,hadeesen Rasool pak s.a.w k door men nahi thien bal k baad men gharr li gaien , aitraz ka jawab شبہ نمبر ۳:۔ موجودہ حدیثیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی نہیں ہیں یہ تو بعد میں لوگوں نے گھڑ کے بنالی ہیں۔ کیونکہ زمانۂ نبوی میں لکھنے کا اتنا رواج ہی نہ تھا۔

شبہ کا ازالہ :۔ پھر قرآن کی بھی خیر نہیں کہ زمانۂ نبوی میں سارا قرآن لکھا نہ گیا نہ کتابی شکل میں جمع ہوا۔ خلافتِ عثمانیہ میں اسے جمع کیا گیا ۔ جناب زمانۂ نبوی میں قلم سے زیادہ حافظے پر اعتماد تھا۔ رب نے صحابۂ کرام کو غضب کے حافظے عطا فرمائے تھے۔ بعد میں ضرورت پیش آنے پر قرآن بھی سینوں اور کاغذکے پرچوں وغیرہ سے جمع کیا گیا۔ اور احادیث بھی حضرت علی مرتضٰی کے پاس بہت سی حدیثیں لکھی ہوئی تھیں۔ جنہیں آپ تلوار کے پر تلے میں رکھتے تھے اور لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔ خیال رہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ
۸۰ ؁ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے مسندِ امام اعظم رحمۃ اﷲ علیہ اور آپ کے شاگرد امام محمد نے مؤطا امام محمد اور آپ کے بد امام مالک نےرحمۃ اللہ علیہ جو ۹۰ ؁ھ میں پیدا ہوئے۔ مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کتب حدیث لکھیں پھر اُن سے قریب ہی امام بخاری وغیرہم کا زمانہ ہے جنہوں نے بہت احتیاط سے احادیث چھانٹیں اور جمع کیں۔
Aitraz , baaz hadesen Aaqal k khilaf heyn ya apas men ahades men ikhtlaf o inkar hey , aur aitraz ka jawab شبہ نمبر ۴:۔ بعض حدیثیں بعض کے متعارض ہیں اور بعض عقل کے بھی خلاف ہیں لہذا گھڑی ہوئی ہیں۔

اس کا ازالہ :۔ حدیثیں صحیح ہیں آپ کی فہم میں غلطی ہے۔ سرسری نظر سے تو قرآن کی آیتیں بھی آپس میں
مخالف معلوم ہوتی ہیں کیا ان کا بھی انکار کرو گے۔ قرآن و حدیث باقاعدہ علماء سے پڑھنی چاہیں محض ترجموں سے نہیں آتیں۔ 
آخری گزارش:۔منکرینِ حدیث سے ایک گزارش ہے کہ ہم لمبی بحث میں نہیں پڑتے صرف دو مسئلے قرآن کے ذریعہ آپ سے حل کراتے ہیں:۔
۱۔ اسلام کا سب سے عام حکم ہے \'\\\' اَقِیمُوالصَّلوٰۃَ وَاٰتُواالزَّکوٰۃَ \'\'
 نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔ براہ مہربانی قرآنی نماز۔ قرآنی زکوۃ ادا کرکے دکھادیجئے ، جس میں حدیث سے امداد نہ لی گئی ہو۔ نماز کل کتنے وقت کی ہے اور کتنی رکعتیں ہیں۔ زکوۃ کتنے مال پر کتنی ہے۔
۲۔ قرآن نے صرِف سؤر کا گوشت حرام کیا ہے۔ کُتّے ،بلّے ، گدھے اور سؤر کے کلیجی گردوں کی حرمت قرآن سے دکھادیجئے۔ غرضیکہ چکڑالویّت صرف قولی مذہب ہے جس پر عمل ناممکن ہے۔


Sharah Mishkawt, Sharah Mishkaat , Mufti Ahmad Yar Naeemi

ان حالات کے ماتحت فقیر نے اپنے ربّ کے کرم اور اس کے محبو ب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مہربانی سے قران شریف کے تین اگلے پاروں کی اُردو زبان میں ایک مفصّل تفسیر مصمّٰی اشرف التفاسیر لکھی اور تیسوں پاروں کی ایک مختصر اور جامع تفسیر مسمّٰی نورالعرفان تصنیف کی 145 جس میں ضروریات ِ زمانہ کے لحاظ سے فوائد سوال و جواب وغیرہ ہیں۔ ادھر بخاری شریف کی شرح عربی زبان میں یعنی کلامِ حبیب کی شرح زبانِ حبیب میں مسمّٰی باسم تاریخ انشراح بخاری المعروف بنعیم الباری تصنیف کی ۔ عرصہ سے خیال تھا کہ مشکوۃ شریف جو فنِ حدیث میں درسِ نظامی کی پہلی کتاب ہے اور کتب ِاحادیث کی جامع۔ جس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ عرب و عجم میں ہر جگہ پڑھائی جاتی ہے اور عربی فارسی ، اردو زبانوں میں اس کی بہت شرحیں لکھی جاچکی ہیں۔ اس کی اردو میں ایسی شرح لکھوں جو طلباء علماء عوام المسلمین کو یکساں مفید ہو اور جس میں نئے مذاہب اور ان کے احادیث پر نئے اعتراضات کے جوابات بھی ہوں۔ کیونکہ مرقات اور لمعات والوں کے زمانہ میں دنیا کا اور رنگ تھا۔ انہوں نے اس وقت کی ضروریات کے لحاظ سے شرحیں لکھیں نیز ہمارے عوام عربی فارسی سے واقف نہ ہونے کی بناء پر ان سے فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ اب دور کچھ اور ہے۔ ہوا کا رُخ دگرگوں ہے۔ اُس میں اس زمانہ کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے مگر اس بڑے کام کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ ایک بار سرگودھے میں حضرت صاحبزادہ والا شان سلالہ خاندان صاحبزادہ فیض الحسن صاحب زیب سجادہ آلو مہار شریف نے مجھے پُرزور حکم دیا کہ زندگی کا کوئی ٹھیک نہیں۔ مشکوۃ شریف کی اردو میں شرح لکھے جاؤ۔ اس ارشادِ گرامی نے دل میں جوش تو پیدا کیا لیکن حالات کی ناموافقت اور اسباب کے فقدان کی وجہ سے عرصہ تک بس و پیش ہی کرتا رہا کہ ایک روز اچانک میرے دلی دوست حکیم سردار علی صاحب ولد چوہدری میراں بخش صاحب مہاجر مشرقی پنجاب ضلع امرتسر مقیم گجرات نے بھی یہی ارشاد فرمایا کہ مشکوۃ شریف کی اردو شرح کی سخت ضرورت ہے۔
ساتھ میں یہ بھی فرمایا کہ عربی متن میں نقل کردوں گا۔ اس سے کچھ میری ہمت بڑھی مگر پھر بھی شروح کا دیکھنا اور خود لکھنا بھاری کام تھا۔ میرے لختِ جگر نورِ بصر مفتی محمد مختار خان عرف محمد میاں سلمہ اﷲ نے کہا کہ بولتے آپ جائیں لکھوں گا میں۔ تب میں سمجھا کہ یہ سرکاری انتظامات ہیں جو ان پیاروں کے منہ سے ایسی باتیں نکل رہی ہیں۔ اﷲ پر توکل کیا اور چوب قلم ہاتھ میں لی۔ یقین فرمائیے کہ مَیں اس بڑے کام کا اہل نہیں۔ کہاں مجھ جیسا مجہول انسان اور کہاں اس افصح الفصحاء حضور سیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان عالی شان مجھے اس پاک آستانہ سے نسبت ہی کیا:

فہم راز ش چہ کنم من عجمی او عربی لاف مہرش چہ زنم من حبشی اوقرشی

بھلا ان سرکار کے رموز و اشارات اور کلمات طیبات کے اسراء میں کیا سمجھ سکتا ہوں میں عجمی دیہاتی بے عِلم گنوار وہ عرب کے فصحاء کے سردار کِس منہ سے کہوں کہ ان کا چاہنے والا ہوں میں حبشی بدشکل وہ حسینوں کی رونق محفل۔ مگر کیا کروں حال یہ ہے۔

سُبْحَانَ اﷲِ مَا اَجْمَلَکَ مَاَ اَکْمَلَکَ مَا اَحْسَنَکَ 
کھتّے مِہر علی شاہ کتھے تیری ثناء گستاخ اکّھیں کتّھے جالڑیاں

صرف نیّت یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ فقیر کی اس خدمت سے کسی مسلمان بھائی کا ایمان بچالے۔ اور قیامت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے غلاموں اور جاں نثاروں کے کفش برداروں اور شارحین حدیث کے تابعداروں میں حشر نصیب فرمادے ، جو کوئی فقیر کی اس حقیر سی تصنیف سے فائدہ اٹھائے وہ اس فقیر بے نوا کے لیے معافی سیئات اور حسن خاتمہ کی دعا کرے کہا سی لالچ میں میں نے یہ محنت کی ہے اﷲ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور میرے لیے کفارہ سیئات و صدقہ جاریہ بنائے اور اس میں امداد کرنے والوں کو دین و دنیا میں شاد و آباد رکھے۔
اس شرح میں مرقاۃ المفاتیح اور لمعات واشعۃ اللمعات سے امداد لی گئی ہے اس کا نام مرأۃ المناجیح، شرح مشکوۃ المصابیح رکھتا ہوں۔ ربّ تعالیٰ اسے اسم بامسمّٰی بنائے کہ مشکوۃ شریف کی جھلک اس آئین میں نظر آئے اور یہ حقیر شرح کامیابیوں کا ذریعہ بنے، اس کا تاریخی نام ذوالمرآت ۱۳۷۸ھ ہے ۔ آمین ۔

وصلی اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ ونور عرشہ سیدنا و مولینا محمد والہ واصحابہ اجمعین برحمتہ وھو ارحم الراحمین

پننشبہ ۲/ رمضان المبارک ۱۳۷۸؁ھ ۱۲ /مارچ ۱۹۵۹ ؁ 
احمد یار خان نعیمی اشرنی بدایونی سرپرست مدرسہ غوثیہ گجرات مغربی پاکستان
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
الحمدﷲ نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نعوذ باﷲ من شرور انفسنا و من سیئات اعمالنا من یھدہ اﷲ فلامضل لہ و من یضلل فلا ھادی لہ واشھد ان لا الہ الا اﷲ شھادۃ تکون للنجاۃ وسیلۃ

تمام تعریفیں اﷲ کی ہیں ۱؎ ہم اسی کی حمد کرتے ہیں،اُسی سے مدد مانگتے ہیں،اُسی سے معافی چاہتے ہیں۲؎ اور اپنے نفسوں کی شرارت اور اپنے اعمال کی برائیوں سے رب کی پناہ مانگتے ہیں۳؎ جسے اﷲ ہدایت دے اُسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں،جسے اﷲ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۴؎ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں۵؎ ایسی گواہی جو نجات کا وسیلہ اور بلندیٔ درجات

۱؎ یعنی ہر حامد کی محمود پر،ہر وقت،ہرنعمت پر،ہرطرح کی ہر حمد اﷲ تعالٰی ہی کی حمد ہے کیونکہ جسے جو ملا اسی کے دین سے ملا،لہذا وہ ہی ہر حامد کا محمود،ہر ساجد کا مسجود،ہر عابد کا معبود،ہر شاہد کا مشہود،ہر قاصد کا مقصود ہر طرح موجود ہے۔یا یہ مطلب ہے کہ اﷲ کی حقیقی وکامل حمد وہ جو اس نے اپنی کی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: \"اَنْتَ کَمَااَثْنَیْتَ عَلٰی نَفسِك\" لہذا وہ خود ہی حامد ہے،خود ہی محمود،یا اس کی مقبول حمد وہ ہے جو اس کے بندۂ خاص محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی،یا محمدمصطفی کی کامل حمد وہ ہے جو ان کی ان کے رب نے کی،وہ اپنے رب کے احمد ہیں رب ان کا محمود،اور رب ان کا حامد وہ رب کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم،غرض کہ الحمد کا الف لام یا استغراقی یا عہدی۔
۲؎ تمام دنیاوی حاجات بلکہ خود حمدکرنے میں حقیقی مدد اسی سے مانگتے ہیں،اور حمد وغیرہ میں جو کوتاہی ہم سے ہوجائے اس کی معافی کے خواستگار ہیں۔خیال رہے کہ اﷲ کے مقبولوں کی مدد حقیقتًارب ہی کی مدد ہے۔
۳؎ نفس کی شرارتوں سے اپنی خفیہ برائیاں مراد ہیں،اعمال کی برائیوں سے ظاہر خرابیاں مراد ہیں۔ہم ظاہر و باطن عیبی ہیں ان عیبوں کو خود دفع نہیں کرسکتے،نفس و شیطان سخت دشمن،بڑے دشمن کے مقابلہ میں بڑے مددگار کی پناہ درکار،ان دشمنوں سے رب کی پناہ،شیطان کے شر سے نفس امارہ کا شر قوی تر ہے کہ یہ مار آستین ہر وقت گھات میں ہے اس لیئے خصوصیت سے نفس کا ذکر ہوا۔
۴؎ ہدایت کے دو معنی ہیں:راہِ خیر دکھانا،منزل مقصود پر پہنچادینا۔ایسے ہی اس کے مقابل ضلالت کے دو معنی ہیں:راہ شردکھانا،شرتک پہنچا دینا۔پہلےمعنی سے ہدایت کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مرشد کامل یا قرآن کی طرف،یونہی ضلالت کی نسبت شیطان جن و انس یا نفس امارہ کی طرف ہوتی ہے۔مگر دوسرےمعنی سے ہدایت و ضلالت کی نسبت صرف اﷲ تعالٰی کی طرف،یہاں دوسرے معنی مراد ہیں،یعنی

لہذا وہ خود ہی حامد ہے،خود ہی محمود،یا اس کی مقبول حمد وہ ہے جو اس کے بندۂ خاص محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی،یا محمدمصطفی کی کامل حمد وہ ہے جو ان کی ان کے رب نے کی،وہ اپنے رب کے احمد ہیں رب ان کا محمود،اور رب ان کا حامد وہ رب کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم،غرض کہ الحمد کا الف لام یا استغراقی یا عہدی۔
۲؎ تمام دنیاوی حاجات بلکہ خود حمدکرنے میں حقیقی مدد اسی سے مانگتے ہیں،اور حمد وغیرہ میں جو کوتاہی ہم سے ہوجائے اس کی معافی کے خواستگار ہیں۔خیال رہے کہ اﷲ کے مقبولوں کی مدد حقیقتًارب ہی کی مدد ہے۔
۳؎ نفس کی شرارتوں سے اپنی خفیہ برائیاں مراد ہیں،اعمال کی برائیوں سے ظاہر خرابیاں مراد ہیں۔ہم ظاہر و باطن عیبی ہیں ان عیبوں کو خود دفع نہیں کرسکتے،نفس و شیطان سخت دشمن،بڑے دشمن کے مقابلہ میں بڑے مددگار کی پناہ درکار،ان دشمنوں سے رب کی پناہ،شیطان کے شر سے نفس امارہ کا شر قوی تر ہے کہ یہ مار آستین ہر وقت گھات میں ہے اس لیئے خصوصیت سے نفس کا ذکر ہوا۔
۴؎ ہدایت کے دو معنی ہیں:راہِ خیر دکھانا،منزل مقصود پر پہنچادینا۔ایسے ہی اس کے مقابل ضلالت کے دو معنی ہیں:راہ شردکھانا،شرتک پہنچا دینا۔پہلےمعنی سے ہدایت کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مرشد کامل یا قرآن کی طرف،یونہی ضلالت کی نسبت شیطان جن و انس یا نفس امارہ کی طرف ہوتی ہے۔مگر دوسرےمعنی سے ہدایت و ضلالت کی نسبت صرف اﷲ تعالٰی کی طرف،یہاں دوسرے معنی مراد ہیں،یعنی اے مولٰی جسے تو منزل مقصود تک پہنچادے اسے پھر کوئی راہِ شر نہیں دکھا سکتا کہ وہ تو راستوں سے گزرگیا اور جسے تو اس کی بدکاریوں،بداعمالیوں کی وجہ سے کفرقطعی تک پہنچادے پھر اسےکسی کی راہبری کام نہیں دیتی۔لہذا اس خطبہ پر نہ تو یہ اعتراض ہے کہ گمراہی کی نسبت رب کی طرف کیسی!نہ یہ کہ جب خدانے بندہ کو گمراہ کردیا تو بندے کا کیا قصور،کاسِب بندہ ہے خالق مولٰی ۔
۵؎ گواہئ توحید ساری مخلوق نے عقلی یا سمعی دی،مگر ہمارے حضور نے شہودی لہذا تمام مخلوق ثانوی گواہ ہے اور حضور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اوّلی یا حقیقی گواہ اسی لیے رب نے فرمایا: \'\' یٰااَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰكَ شَاھِدًا \'\' یعنی حضور نے اﷲ تعالٰی کی ذات و صفات،جنت دوزخ وغیرہ کو دیکھ کرگواہی دی،چونکہ عینی گواہ پر گواہی مکمل ہوجاتی ہے اسی لیے رب نے فرمایا: \'\' اَلْیَوْمَ اَ کْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ \'\'، \"لَآاِلٰہَ اِلَّااﷲُ\" کے معنی ہیں: \"لَامَعْبُوْدَ اِلَّا اﷲ\" یا \"لَامَقْصُوْدَ اِلَّااﷲ\" مگر ارباب شہود کہتے ہیں: \"لَا مَوْجُوْدَ اِلَّااﷲُ\"۔ غرض کہ جیسا کلمہ پڑھنے والا ویسے اس کے معنی،کلمہ ایک ہے مگر زبانیں مختلف اس لیئے تاثیریں جداگانہ
ولرفع الدرجات کفیلۃ و اشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ الذی بعثہ و طرق الایمان قد عفت اثارھا و خبت انوارھا و وھنت ارکانھا

کی ضامن ہو ۱؎ اور گواہی دیتا ہوں کہ یقینًا محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں ۲؎جنہیں اللہ تعالٰی نے جب بھیجا،جب کہ ایمان کے راستوں کی نشانیاں مٹ چکی تھیں۳؎ اور اُن کی روشنیاں بجھ گئی تھیں۴؎ اور ان کے کنارے کمزور

۱؎ یعنی منافقوں کی سی گواہی نہیں دیتا جو زیادتی کفر کا سبب ہو،بلکہ اخلاص و صدق سے گواہی دیتا ہوں جس سے کافر مؤمن ہوجاتا ہے اور مؤمن عارف بن کر بلند درجے پاجاتا ہے۔
۲؎ حضورصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کےبندے اوررسول اوررسول(پیغمبر)بھی ہیں اور ساری مخلوق کےرسول بھی،یعنی اللہ کے پیغام لانے والے،مخلوق کو پیغام پہنچانے والے،رب سے لینے والے،مخلوق کو دینے والے،لہذا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول اور یہ بھی کہ ہمارے رسول۔پھر حضور کفار کو عذاب کا پیغام دیتے ہیں،مؤمن وں کو ثواب کا،عاشقوں کو وصال کا،غرض حضور کی رسالت مختلف ہے۔نبی اور رسول کبھی ہم معنی ہوتے ہیں کبھی مختلف کہ نبی عام رسول خاص۔
۳؎ کیوں کہ عرب میں اسماعیل علیہ السلام کےبعدکوئی نبی تشریف نہ لائے تھے۔اس چار ہزار سال کے عرصہ میں حضرت اسمعیل علیہ السلام کی تعلیم لوگ بھول چکے تھے۔خیال رہے کہ عرب میں اور اولاد اسماعیل میں ہمارے حضور کے سوا کوئی نبی نہ آئے کہ جس آسمان پرسورج ہے اس پرکوئی تارا نہیں۔
۴؎ اس طرح کہ بنی اسرائیل جو دیگر ممالک میں جلوہ گر ہوئے ان کی ہلکی روشنیاں عرب میں پہنچیں مگر عیسیٰ علیہ السلام کے بعدوہ بھی گل ہوکر رہ گئیں کہ انجیل مسخ کردی گئی،راہبوں پادریوں نے ان کی تعلیم بدل دی۔اگر کچھ بچے کھچے اصلی عیسائی تھے بھی تو وہ غاروں پہاڑوں میں روپوش ہوگئے۔اب دنیا میں اندھیرا ہی رہ گیا،اسی دورکو جاہلیت کا دور کہا جاتا ہے۔

و جھل مکانھا فشید صلوات اللہ علیہ و سلامہ من معالمھا ماعفا و شفا من العلیل فی تائید کلمۃ التوحید من کان علی شفاواوضح سبیل الھدایۃ لمن اراد ان یسلکھا و اظھر کنوز السعادۃ لمن قصد ان یملکھا۔

اور انکی جگہیں نامعلوم ہوچکی تھیں ۱؎حضور پر اللہ کی رحمتیں اور سلام ہوں ۲؎کہ آپ نے اسلام کے مٹے ہوئے نشان اونچے کردیئے،اور کلمۂ توحید کو تقویت دے کر ان بیماروں کو شفادے دی جو کنارہ پر تھے،۳؎ اور راہِ ہدایت کا راستہ اُن کے لیے صاف فرمادیا جو اس پر چلنا چاہے،اور خوش نصیبی کے خزانے اس کے لیے ظاہر فرمادیئے جو اُن کا مالک ہونا چاہے۴؎

۱؎ اس طرح کہ اصلی عقائد کے ساتھ صحیح عبادات بھی گم ہوکر رہ گئیں تھیں پتہ نہ لگتا تھا کہ ان بیماریوں کی دوا کہاں ملتی ہے اور ان کا حکیم کہاں ہے۔غرضکہ دنیا میں گھٹا ٹوپ اندھیرا تھا کیوں نہ ہوتا کہ ہدایت کا سورج نکلنے والا تھا۔جس سے عالم میں نور اور ظلمت کافور ہونے والی تھی۔
۲؎ درود شریف میں صلوۃ وسلام دونوں عرض کرنا چاہئیں کہ قرآن کریم نے دونوں کا حکم دیا صرف صلوۃ یا صرف سلام بھیجنے کی عادت ڈال لینا ممنوع ہے۔(ازمرقات)اسی لیے درودِ ابراہیمی صرف نماز کے لیے ہےکیونکہ اس میں صرف صلوۃ ہے سلام نہیں۔سلام التحیات میں ہوچکا نماز کے علاوہ یہ درود مکمل نہیں کہ سلام سے خالی ہے۔اس کی پوری بحث درود شریف کی بحث میں آئے گی۔
۳؎ اس طرح کہ حضور نے دنیا کو بھولا ہوا سبق یاد دلایا،بت پرستی دفع کی،کلمۂ توحید کا اعلان فرمادیا اور جو دوزخ کے کنارے پہنچ چکے تھے انہیں بازو پکڑ کے ہٹالیا،ہرروحانی بیمارکو ہرطرح شفا دی،کسی سے یہ نہ فرمایا کہ تیری دوا میرے دارالشفاء میں نہیں۔ایسا کامل اکمل ہادی نہ آیا تھا نہ آئے۔خیال رہے کہ یہاں پہلا شفا شفاءٌ کا ماضی ہے یعنی حضورنے تندرستی وصحت بخشی،اور دوسرا شفا اسم جامد ہے بمعنی کنارہ یعنی جو ہلاکت یا جہنم کے کنارہ پرتھے انہیں صحت بخشی کہ کفارکو ایمان،فساق کو تقویٰ عطا کیا۔مصنف کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور شفا بخشتے ہیں یہ کہنا شرک نہیں۔
۴؎ ظاہر یہ ہے کہ ہدایت سے مراد شریعت ہے،سعادت سے مراد طریقت۔یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت وطریقت دونوں بخشیں،قلب وقالب دونوں کا انتظام فرمایا۔کسی نے انکار کرکے دائمی بدبختی حاصل کرلی،کسی نے قبول کرکے دارین کی خوش نصیبی کمائی۔حضور نے انہیں مکہ والوں میں سے صدیق فاروق بنائے،رہزنوں کو راہبر،گمراہوں کو ہادی،بےعلموں کو دنیا بھرکامعلم بنادیا۔حضور کا فیض کعبہ کی دیواروں سے پوچھو،مکہ کے بازاروں سے پوچھو،منیٰ ومزدلفہ کےکوچوں سے پوچھو،عرفات کی بلندچوٹیوں سےمعلوم کرو کہ لوگوں نے کعبہ کو بت خانہ بنادیا تھا،حضور نے خانۂ خدا بنا کر تمام عالم کا مسجود الیہ بنادیا۔

صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم
اما بعد! فان التمسك بھدیہ لا یستتب الا بالاقتفاء لما صدر من مشکوٰتہ والاعتصام بحبل اللہ لا یتم الا ببیان کشفہ و کان کتٰب المصابیح الذی صنفہ الامام محی السنۃ قامع البدعۃ ابو محمد الحسین ابن مسعود الفراء البغوی رفع اللہ درجتہ اجمع کتاب صنف

حمدوصلوۃ کے بعد جاننا چاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مضبوطی سے حاصل کرنا ناممکن ہے بغیر اتباع کئے ان احادیث کے جو آپ کے سینہ سے صادر ہوئیں ۱؎ اور اللہ کی رسّی کا مضبوطی سے تھامنا مکمل نہیں بغیراس کے واضح بیان کے۲؎ اور کتاب مصابیح جو سنت زندہ کرنے والے،بدعت اکھیڑنے والے امام ابو محمد حسین ابن مسعود فرّاءبغوی کی تصنیف ہے۔اللہ تعالٰی اُن کا درجہ بلند کرے تمام ان کتب میں جامع تر تھی جو اس بارے میں لکھی گئیں۳؎

۱؎ یعنی ہرانسان پرحضورعلیہ السلام کی اطاعت فرض ہے اوریہ اطاعت بغیرحدیث و سنت جانے ناممکن ہے۔مشکوٰۃ یعنی طاق حضور انور کا سینہ مبارک ہے اور حضور علیہ السلام کے اقوال و احوال اس طاق کے چراغ ہیں،اگر روشنی چاہتےہوتو اس سینے اور ان الفاظ طیبہ سے حاصل کرو،قرآن کتاب ہے حضور علیہ السلام چراغ اور چراغ کے بغیر کتاب پڑھی نہیں جاتی۔حضور علیہ السلام کے بغیر قرآن سمجھا نہیں جاتا،ہر آیت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کی حاجتمند ہے ورنہ ہمیں کیا خبر کہ اَقِیمُوْا کے کیا معنی اور صلوٰۃ و زکوۃ کسے کہتے ہیں۔
۲؎ اللہ کی رسی قرآن کریم ہے جو ہم نیچوں کو غارسے نکال کر اوپر پہنچانے آئی۔لیکن اس مضبوط رسی سے فائدہ وہی اٹھائے گا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اسے پکڑے گا۔اس رسی کے لانے والے بھی حضور ہیں،پھر ہمیں پکڑانے والےبھی حضور،پھرپکڑنے کےبعدچھوٹ جانے سےبچانے والےبھی حضور،کہ حضور کےذریعہ مخلوق کو قرآن ملا،حضور ہی کےسمجھائے قرآن سمجھاگیا۔حضورہی کی نگاہ کرم سے ان شاءاللہ مرتے دم تک اس پر عمل کیا اور انہیں کےکرم سے مرتے وقت بفضلہ کلمہ نصیب ہوگا۔جو حدیث کا انکاری ہے وہ صرف دو رکعت نمازپڑھ کریا ایک بار ایسی زکوۃ دےکر دکھادےجس میں حدیث کی مدد نہ ہو۔غرض کہ نماز وزکوۃ وغیرہ سنائی قرآن نے،سکھائی حضور نے،قرآن روحانی کھاناہے،حدیث اس کا پانی،پانی کے بغیرنہ کھانا تیار ہو نہ کھایا جاسکے۔
۳؎ یعنی فن حدیث میں بہت کتب لکھی گئیں،مگر کتاب مصابیح تمام کتب کی جامع کتاب ہے،اس کے مصنف حسین ابن مسعود ہیں۔آپ کی کنیت ابومحمدہے،لقب فراءکیونکہ پوستین کی تجارت کرتے تھے(فراءنحوی اور ہیں)ہرات وسرخس کے درمیان ایک بستی ہے بغو۔وہاں کے رہنے والےتھے لہذا بغوی کہلاتے ہیں۔خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تونے میری سنت زندہ کی اللہتجھے زندہ رکھے،لہذا خطاب ہوامحی السنہ۔شافعی المذہب ہیں،بڑےمتقی،عالم،زاہد،تارک الدنیابزرگ تھے،ہمیشہ روکھی روٹی،یا زیتون یاکشمش سے روٹی کھائی،اسی برس سے زیادہ عمر پا کر ۵۱۶؁ھ مقام کرد میں وفات پائی،اپنے استاذ قاضی حسین کے پہلو میں دفن ہوئے۔آپ نے\"مصابیح شرح السنۃ\"،\"تفسیرمعالم التنزیل\"،\"کتاب التہذیب\"،\"فتاویٰ بغوی\"وغیرہ کتب تصنیف فرمائیں۔خیال رہے کہ مصابیح میں چار ہزار چارسوچونتیس حدیثیں تھیں صاحب مشکوٰۃ نے ایک ہزار پانچسو گیارہ احادیث کا اضافہ کیا لہذامشکوٰۃ شریف میں پانچ ہزار نو سو پینتالیس احادیث ہیں۔(ازمرقاۃ)