Friday, 25 July 2014
Tawaf e Mazar, Qabar ko Chumna, Qabar ki Bulandi aur masail, Aala Hazrat Imam Ahmad Raza Khan Bralvi ki Nazar men !
23:02
مسئلہ ۱۵۹ تا ۱۶۱: از موضع بکہ جیبی والا علاقہ جاگل تھانہ بری پور ڈاکخانہ
کوٹ نجیب اﷲ خا ں مرسلہ مولوی شیر محمد خان ۲۳ رمضان المبارک ۱۳۱۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں:
(۱) بوسہ قبر کا کیا حکم ہے؟ (۲) قبر کا طواف کرنا کیسا ہے؟
(۳) قبرکس قدر بلند کرنی جائز ہے؟
الجواب
(۱) بعض علماء اجازت دیتے ہیں اور بعض روایات بھی نقل کرتے ہیں، کشف الغطاء میں ہے : درکفایۃ الشعبی اثرے درتجویز بوسہ دادن قبر والدین را نقل کردہ وگفتہ دریں صورت لاباس است شیخ اجل ہم درشرح مشکوٰۃ بودا ۤں دربعضے اشارت کردہ بے تعرض بجرح آں ۱؎۔ کفایۃ الشعبی میں قبر والدین کو بوسہ دینے کے بارے میں ایک اثر نقل کیا ہے اورکہا ہے کہ اس صور ت میں کوئی حرج نہیں۔ اور شیخ بزرگ نے بھی شرح مشکوٰۃ میں بعض آثار میں اس کے وارد ہونے کا اشارہ کیا اور اس پر کوئی جرح نہ کی ۔ (ت)
(۱؎ کشف الغطاء فصل دہم زیارت قبور مطبع احمدی دہلی ص ۷۹)
مگر جمہور علماء مکروہ جانتے ہیں، تو اس سے احتراز ہی چاہئے، اشعۃ اللمعات میں ہے : مسح نہ کند قبررا بدست وبوسہ نہ دہدآں را۔ ۲؎ قبر کو ہاتھ نہ لگائے، نہ ہی بوسہ دے ۔(ت)
(۲؎ اشعۃ اللمعات باب زیارۃ القبور مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۷۱۶)
کشف الغطاء میں ہے: کذافی عامۃ الکتب ۳؎ (ایسا ہی عامۃ کُتب میں ہے ۔ت)
(۳؎ کشف الغطاء فصل دہم زیارت قبور مطبع احمدی دہلی ص ۷۹)
مدارج النبوۃ میں ہے : دربوسہ دادن قبر والدین روایت بیہقی می کنند وصحیح آنست کہ لا یجوز است۱؎، واﷲ تعالٰی اعلم قبر والدین کو بوسہ دینے کے بارے میں ایک روایت بیہقی ذکر کرتے ہیں مگر صحیح یہ ہے کہ ناجائز ہے (ت)
(۱؎ مدارج النبوۃ ذکر نماز گزاردن آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خلف ا بوبکر الخ مکتبہ نوریہ رضویہ بیروت ۲/ ۴۲۴)
بعض علماء نے اجازت دی ۔ مجمع البرکات میں ہے: ویمکنہ ان یطوف حولہ ثلث مرات فعل ذلک ۲؎ ۔ گرد قبر تین بار طواف کرسکتا ہے ۔ (ت)
(۲؎ مجمع البرکات)
مگر راجح یہ کہ ممنوع ہے۔ مولانا علی قاری منسک متوسط میں تحریر فرماتے ہیں : الطواف من مختصات الکعبۃ المنیفۃ فیحرم حول قبور الانبیاء والاولیاء۳؎ ۔ طواف کعبہ کی خصوصیات سے ہے انبیاء واولیاء کی قبروں کے گرد حرام ہوگا ۔ (ت)
(۳؎ منسک متوسط مع ارشاد الساری فصل ولیغتنم ایام مقامہ الخ دارالکتب العربی بیروت ص ۳۴۲)
مگر اسے مطقاً شرک ٹھہرادینا جیسا کہ طائفہ وہابیہ کا مزعوم ہے محض باطل وغلط اور شریعت مطہرہ پر افتراء ہے۔
(۳) ایک بالشت یا کچھ زائد۔ فی الدرالمختار یسنم قدر شبر ۴فی رداالمحتار اواکثر شیئا قلیلا بدائع ۵؎ ۔ ایک بالشت کی مقدار کوہان کی طرح بنادی جائے (درمختار) یا کچھ زیادہ کردی جائے، بدائع (ردالمحتار) (ت)
(۴؎ درمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۲۵)
(۵؎ ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز ادارۃ الطباعۃالمصریۃ مصر ۱/ ۶۰۱)
زیادہ فاحش بلندی مکروہ ہے۔ حلیہ میں ہے: تحمل الکراھۃ علی الزیادۃ الفاحشۃ وعدمھا علی القلیلۃ المبلغۃ لہ مقدار اربع اصابع اوما فوقہ قلیل۶؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم کراہت بہت زیادہ اونچی کرنے پر محمول ہے، اور عدمِ کراہت قلیل زیادتی پر جوایک بالشت کی مقدار ہو یا اس سے کچھ زائد ۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
(۶؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
مسئلہ ۱۶۲: ازقادری گنج ضلع بیر بھوم ملک بنگال مرسلہ سید ظہور الحسن صاحب قادری رزاقی مرشدی کرنالی ۲۲ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
پیر مرشد کے مزار کا طواف کرنا، اورمزار کی چوکھٹ کو بوسہ دینا اورآنکھوں سے لگا نااور مزار سے اُلٹے پاؤں پیچھے ہٹ کے،ہاتھ باندھے ہوئے واپس آنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب
مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص بخانہ کعبہ ہے۔ مزار کوبوسہ دینا نہ چاہئے ، علماء اس میں مختلف ہیں۔ اور بہتر بچنا ، او ر اسی میں ادب زیادہ ہے آستانہ بوسی میں حرج نہیں، اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی۔ اور جس چیز کو شرع نے منع نہ فرمایا منع نہیں ہوسکتی قال اﷲ تعالٰی ان الحکم الا ﷲ ۱؎ (اﷲ کا ارشاد ہے : حکم نہیں مگر اﷲ کا ۔ ت)ہاتھ باندھے الٹے پاؤں واپس آنا ایک طرز ادب ہے۔، اور جس ادب سے شرع نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں، ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذاء کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز کیا جائے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۱؎ القرآن ۴۰/۱۲)
مسئلہ ۱۶۳: مزارات اولیائے کرام علیہم رحمۃ المنعام کے چومنے کو کفر یا شرک کہنا کیسا ہے؟
الجواب
فی الواقع بوسہ قبر میں علماء مختلف ہیں ، اور تحقیق یہ ہے کہ وہ ایک امر ہے کہ دو چیزوں داعی ومانع کے درمیان دائر، داعی محبت ہے او رمانع ادب ، تو جسے غلبہ محبت ہو اس پر مواخذہ نہیں کہ اکابر صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے ثابت ہے۔ اور عوام کے لیے منع ہی احوط ہے، ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مزارِ اکابر سے کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے کھڑا ہو، پھر تقبیل کی کیا سبیل! عالمِ مدینہ علامہ سید نورالدین سمہودی قدس سرہ خلاصۃ الوفاء شریف میں جدارِ مزار انور کے لمس وتقبیل وطواف سے ممانعت کے اقوال نقل کرکے فرماتے ہیں: فی کتاب العلل والمسؤلات لعبد اﷲ بن احمد بن حنبل سألت ابی عن الرجل یمس منبر النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ علٰی الہٖ وسلم تبرک بمسہ وتقبیلہ ویفعل بالقبر مثل ذٰلک جاء ثواب اﷲ تعالٰی فقال لاباس بہ ۱؎ ۔ یعنی امام احمد بن حنبل کے صاحبزادہ امام عبداﷲ فرماتے ہیں: میں نے اپنے باپ سے پوچھا کوئی شخص نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے منبر کوچھوئے او ربوسہ دے۔ اور ثواب الہٰی کی امید پر ایساہی قبر شریف کے ساتھ کرے، فرمایا، اس میں کچھ حرج نہیں۔(ت)
(۱؎ وفاء ا لوفا الفصل الرا بع فی آداب الزیارۃ والمجاورۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۱۴۰۴)
کوٹ نجیب اﷲ خا ں مرسلہ مولوی شیر محمد خان ۲۳ رمضان المبارک ۱۳۱۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں:
(۱) بوسہ قبر کا کیا حکم ہے؟ (۲) قبر کا طواف کرنا کیسا ہے؟
(۳) قبرکس قدر بلند کرنی جائز ہے؟
الجواب
(۱) بعض علماء اجازت دیتے ہیں اور بعض روایات بھی نقل کرتے ہیں، کشف الغطاء میں ہے : درکفایۃ الشعبی اثرے درتجویز بوسہ دادن قبر والدین را نقل کردہ وگفتہ دریں صورت لاباس است شیخ اجل ہم درشرح مشکوٰۃ بودا ۤں دربعضے اشارت کردہ بے تعرض بجرح آں ۱؎۔ کفایۃ الشعبی میں قبر والدین کو بوسہ دینے کے بارے میں ایک اثر نقل کیا ہے اورکہا ہے کہ اس صور ت میں کوئی حرج نہیں۔ اور شیخ بزرگ نے بھی شرح مشکوٰۃ میں بعض آثار میں اس کے وارد ہونے کا اشارہ کیا اور اس پر کوئی جرح نہ کی ۔ (ت)
(۱؎ کشف الغطاء فصل دہم زیارت قبور مطبع احمدی دہلی ص ۷۹)
مگر جمہور علماء مکروہ جانتے ہیں، تو اس سے احتراز ہی چاہئے، اشعۃ اللمعات میں ہے : مسح نہ کند قبررا بدست وبوسہ نہ دہدآں را۔ ۲؎ قبر کو ہاتھ نہ لگائے، نہ ہی بوسہ دے ۔(ت)
(۲؎ اشعۃ اللمعات باب زیارۃ القبور مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۷۱۶)
کشف الغطاء میں ہے: کذافی عامۃ الکتب ۳؎ (ایسا ہی عامۃ کُتب میں ہے ۔ت)
(۳؎ کشف الغطاء فصل دہم زیارت قبور مطبع احمدی دہلی ص ۷۹)
مدارج النبوۃ میں ہے : دربوسہ دادن قبر والدین روایت بیہقی می کنند وصحیح آنست کہ لا یجوز است۱؎، واﷲ تعالٰی اعلم قبر والدین کو بوسہ دینے کے بارے میں ایک روایت بیہقی ذکر کرتے ہیں مگر صحیح یہ ہے کہ ناجائز ہے (ت)
(۱؎ مدارج النبوۃ ذکر نماز گزاردن آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم خلف ا بوبکر الخ مکتبہ نوریہ رضویہ بیروت ۲/ ۴۲۴)
بعض علماء نے اجازت دی ۔ مجمع البرکات میں ہے: ویمکنہ ان یطوف حولہ ثلث مرات فعل ذلک ۲؎ ۔ گرد قبر تین بار طواف کرسکتا ہے ۔ (ت)
(۲؎ مجمع البرکات)
مگر راجح یہ کہ ممنوع ہے۔ مولانا علی قاری منسک متوسط میں تحریر فرماتے ہیں : الطواف من مختصات الکعبۃ المنیفۃ فیحرم حول قبور الانبیاء والاولیاء۳؎ ۔ طواف کعبہ کی خصوصیات سے ہے انبیاء واولیاء کی قبروں کے گرد حرام ہوگا ۔ (ت)
(۳؎ منسک متوسط مع ارشاد الساری فصل ولیغتنم ایام مقامہ الخ دارالکتب العربی بیروت ص ۳۴۲)
مگر اسے مطقاً شرک ٹھہرادینا جیسا کہ طائفہ وہابیہ کا مزعوم ہے محض باطل وغلط اور شریعت مطہرہ پر افتراء ہے۔
(۳) ایک بالشت یا کچھ زائد۔ فی الدرالمختار یسنم قدر شبر ۴فی رداالمحتار اواکثر شیئا قلیلا بدائع ۵؎ ۔ ایک بالشت کی مقدار کوہان کی طرح بنادی جائے (درمختار) یا کچھ زیادہ کردی جائے، بدائع (ردالمحتار) (ت)
(۴؎ درمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۲۵)
(۵؎ ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز ادارۃ الطباعۃالمصریۃ مصر ۱/ ۶۰۱)
زیادہ فاحش بلندی مکروہ ہے۔ حلیہ میں ہے: تحمل الکراھۃ علی الزیادۃ الفاحشۃ وعدمھا علی القلیلۃ المبلغۃ لہ مقدار اربع اصابع اوما فوقہ قلیل۶؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم کراہت بہت زیادہ اونچی کرنے پر محمول ہے، اور عدمِ کراہت قلیل زیادتی پر جوایک بالشت کی مقدار ہو یا اس سے کچھ زائد ۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
(۶؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی )
مسئلہ ۱۶۲: ازقادری گنج ضلع بیر بھوم ملک بنگال مرسلہ سید ظہور الحسن صاحب قادری رزاقی مرشدی کرنالی ۲۲ جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
پیر مرشد کے مزار کا طواف کرنا، اورمزار کی چوکھٹ کو بوسہ دینا اورآنکھوں سے لگا نااور مزار سے اُلٹے پاؤں پیچھے ہٹ کے،ہاتھ باندھے ہوئے واپس آنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب
مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص بخانہ کعبہ ہے۔ مزار کوبوسہ دینا نہ چاہئے ، علماء اس میں مختلف ہیں۔ اور بہتر بچنا ، او ر اسی میں ادب زیادہ ہے آستانہ بوسی میں حرج نہیں، اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی۔ اور جس چیز کو شرع نے منع نہ فرمایا منع نہیں ہوسکتی قال اﷲ تعالٰی ان الحکم الا ﷲ ۱؎ (اﷲ کا ارشاد ہے : حکم نہیں مگر اﷲ کا ۔ ت)ہاتھ باندھے الٹے پاؤں واپس آنا ایک طرز ادب ہے۔، اور جس ادب سے شرع نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں، ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذاء کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز کیا جائے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
(۱؎ القرآن ۴۰/۱۲)
مسئلہ ۱۶۳: مزارات اولیائے کرام علیہم رحمۃ المنعام کے چومنے کو کفر یا شرک کہنا کیسا ہے؟
الجواب
فی الواقع بوسہ قبر میں علماء مختلف ہیں ، اور تحقیق یہ ہے کہ وہ ایک امر ہے کہ دو چیزوں داعی ومانع کے درمیان دائر، داعی محبت ہے او رمانع ادب ، تو جسے غلبہ محبت ہو اس پر مواخذہ نہیں کہ اکابر صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے ثابت ہے۔ اور عوام کے لیے منع ہی احوط ہے، ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مزارِ اکابر سے کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے کھڑا ہو، پھر تقبیل کی کیا سبیل! عالمِ مدینہ علامہ سید نورالدین سمہودی قدس سرہ خلاصۃ الوفاء شریف میں جدارِ مزار انور کے لمس وتقبیل وطواف سے ممانعت کے اقوال نقل کرکے فرماتے ہیں: فی کتاب العلل والمسؤلات لعبد اﷲ بن احمد بن حنبل سألت ابی عن الرجل یمس منبر النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ علٰی الہٖ وسلم تبرک بمسہ وتقبیلہ ویفعل بالقبر مثل ذٰلک جاء ثواب اﷲ تعالٰی فقال لاباس بہ ۱؎ ۔ یعنی امام احمد بن حنبل کے صاحبزادہ امام عبداﷲ فرماتے ہیں: میں نے اپنے باپ سے پوچھا کوئی شخص نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے منبر کوچھوئے او ربوسہ دے۔ اور ثواب الہٰی کی امید پر ایساہی قبر شریف کے ساتھ کرے، فرمایا، اس میں کچھ حرج نہیں۔(ت)
(۱؎ وفاء ا لوفا الفصل الرا بع فی آداب الزیارۃ والمجاورۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۱۴۰۴)